tag:blogger.com,1999:blog-16419506311570228622024-03-13T11:04:59.193+05:00کسی شاخ سبز کی چھا ؤ ں میں...یہ خود اپنی دریافت کا سفر ہے۔۔۔ تاریک گوشے میں بیٹھ کر روشن دنیا کو دیکھنے کا عمل۔۔۔ Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.comBlogger195125tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-54569923428902219372024-03-13T10:42:00.001+05:002024-03-13T10:42:48.131+05:00<p style="text-align: right;"> لاکھ بار شکر اس سب کے لیے جو اللہ نے عطا کیا اور کروڑہا بار شکر اس سب کے لیے جو اللہ نے عطا نہیں کیا۔ <br /></p>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-80121838913131990352024-03-13T10:41:00.003+05:002024-03-13T10:41:33.285+05:00ایک یاد دہانی<p style="text-align: right;"> اس دنیا کی کسی بھی بات یا چیز میں بہت دل لگانے اور اس دنیا کی کسی بھی بات یا چیز کو دل پر لگانے کی ایسی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔<br /></p>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-13879112949752155352023-11-12T20:55:00.003+05:002024-01-24T14:53:17.073+05:00رزق<p> <span class="x193iq5w xeuugli x13faqbe x1vvkbs x1xmvt09 x1lliihq x1s928wv xhkezso x1gmr53x x1cpjm7i x1fgarty x1943h6x xudqn12 x3x7a5m x6prxxf xvq8zen xo1l8bm xzsf02u x1yc453h" dir="auto"></span></p><div class="xdj266r x11i5rnm xat24cr x1mh8g0r x1vvkbs x126k92a"><div dir="auto" style="text-align: start;">پچھلے دو ہفتے کے دوران میں نے چند ایک کو کسی ایک ہی شخص سے کچھ ایسا کہتے سنا ہے کہ اللہ تو خوش باش صورتوں والوں کو ہی کھلا رزق دیتا ہے۔ غم زدہ دوسرے لفظوں میں Grieving لوگوں کا رزق ان کی روتی دھوتی صورت کی وجہ سے کم ہو جاتا ہے یا روک لیا جاتا ہے۔ </div></div><p></p><div><div class="" dir="auto"><div class="x1iorvi4 x1pi30zi x1swvt13 xjkvuk6" data-ad-comet-preview="message" data-ad-preview="message" id=":r11i:"><div class="x78zum5 xdt5ytf xz62fqu x16ldp7u"><div class="xu06os2 x1ok221b"><span class="x193iq5w xeuugli x13faqbe x1vvkbs x1xmvt09 x1lliihq x1s928wv xhkezso x1gmr53x x1cpjm7i x1fgarty x1943h6x xudqn12 x3x7a5m x6prxxf xvq8zen xo1l8bm xzsf02u x1yc453h" dir="auto"><div class="x11i5rnm xat24cr x1mh8g0r x1vvkbs xtlvy1s x126k92a"><div dir="auto" style="text-align: start;">ان لفظوں کی درپردہ سختی ایک طرف۔۔ مگر سوال اٹھا ذہن میں کہ کیا واقعی ایسا ہے؟؟ اور آج سوچتے سوچتے یہ آیاتِ قرآنی ذہن میں آئیں۔۔ (یہ بھی رزق کی ایک صورت ہے، نگاہ کے لیے حسن نظارہ، کان کے لیے حسن سماعت، دماغ کے لیے حسن خیال ، پیروں <span></span>کے لیے خیر کی راہ، ہاتھ کے لیے خیر کا کام، زبان کے لیے دوسروں سے دیکھ بھال کر بات کرنا اور حسن کلام، سب پاک رزق ہے) تو یہ بھی سوچا کہ اس ’’رزق‘‘ میں دوسروں کو شریک کیا جائے۔ </div></div><div class="x11i5rnm xat24cr x1mh8g0r x1vvkbs xtlvy1s x126k92a"><div dir="auto" style="text-align: start;">الله يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر</div><div dir="auto" style="text-align: start;">الله يبسط الرزق لمن يشاء من عباده ويقدر له</div><div dir="auto" style="text-align: start;">اللہ شکلیں دیکھ کر رزق نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور جس کے لیے چاہے تنگ کر دے۔۔۔۔ جب چاہے تنگی کو فراخی میں بدل دے۔۔۔ </div></div><div class="x11i5rnm xat24cr x1mh8g0r x1vvkbs xtlvy1s x126k92a"><div dir="auto" style="text-align: start;">رزق کی فراخی ، بخشے جانے کی، اللہ کے پسندیدہ ہونے کی نشانی بھی نہیں ہے۔۔۔</div><div dir="auto" style="text-align: start;">اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ۔۔۔ </div><div dir="auto" style="text-align: start;">فتنہ یعنی امتحان۔۔ یہاں ہر چیز امتحان ہی ہے۔۔ تنگی بھی فراخی بھی۔۔۔</div></div><div class="x11i5rnm xat24cr x1mh8g0r x1vvkbs xtlvy1s x126k92a"><div dir="auto" style="text-align: start;">ہاں ضرور، شکر کرنے والوں کو وہ اور نوازتا ہے۔ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ ۔۔۔ مگر کسی کی کیفیت کی خبر خود اس کو ہو سکتی ہے یا اللہ کو۔ کوئی انسان کسی کے اندر کی کیفیت کو یقین سے کیسے جان سکتا ہے؟ رنج زدہ دل ایک ہی وقت میں رنج اور شکر کرسکتا ہے۔ محروم دعا دے سکتا ہے دوسروں کو اور شاکر بھی ہو سکتا ہے، یہ ممکن ہے۔ اور جس بھی حال میں اللہ یاد رہے، وہی فضل ہے وہی رحمت ہے، چاہے وہ کوئی تنگی ہو یا فراخی۔۔۔</div></div><div class="x11i5rnm xat24cr x1mh8g0r x1vvkbs xtlvy1s x126k92a"><div dir="auto" style="text-align: start;">اور مبارک ہیں وہ جو دوسروں کے دلوں کو ٹھیس نہ پہنچانے کی خاطر بہت دیکھ بھال کر بولتے ہیں۔۔ مبارک ہیں وہ جو ایسی کسی کوتاہی کا شعور ہونے پر اپنی غلطی سے رجوع کرتے ہیں۔ </div></div><div class="x11i5rnm xat24cr x1mh8g0r x1vvkbs xtlvy1s x126k92a"><div dir="auto" style="text-align: start;">اور مبارک ہیں وہ جو دوسروں کو ان کی تنگی کے وقت میں ان کی اچھائی کی یاد دلاتے ہیں، ان کی اصل کی طرف واپس لوٹنے کی راہ دکھاتے ہیں، بجائے judge کرنے کے، بجائے انگلی اٹھانے کے، بجائے خود اپنی شکرگزاریوں کا اعلان کرنے کے۔</div><div dir="auto" style="text-align: start;">اللہ تعالیٰ بھی یہی کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کو یاد دلا دیا کرو۔ </div><div dir="auto" style="text-align: start;">تو یاد رہے کہ تنگی کا یہی وقت فراخی بھی ہے، یاد دہانی بھی ہے کہ آج کا وقت گزر جائے گا اور کل کو آپ کی جگہ کوئی اور ہو تو آپ اس کے لیے کاندھا بنیں گے، دلاسا بنیں گے، ڈھارس بنیں گے۔ اپنی شکرگزاری اور اس کی ناشکری کا اعلان نہیں بنیں گے۔ رحمتوں کی امید کا اعلان بنیں گے۔</div></div><div class="x11i5rnm xat24cr x1mh8g0r x1vvkbs xtlvy1s x126k92a"><div dir="auto" style="text-align: start;">مبارک ہیں وہ جو سنت اللہ اور سنت الرسول کے مطابق ۔۔۔ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى۔۔ کی تفسیر بنتے ہیں، انسانوں کو چیزوں کی طرح استعمال کے بعد ، ہاتھ تھامنے کے بعد چھوڑتے نہیں ہیں۔</div></div><div class="x11i5rnm xat24cr x1mh8g0r x1vvkbs xtlvy1s x126k92a"><div dir="auto" style="text-align: start;">اور وہ جن کی آنکھیں نم ہیں اللہ انہیں وہ آنسو دے جو گلے شکوے کے نہ ہوں ۔ رحم کے ہوں نرمی کے ہوں ، خوف کے نہ ہوں شوق کے ہوں، اللہ کی یاد کے ہوں، آمین</div></div><div class="x11i5rnm xat24cr x1mh8g0r x1vvkbs xtlvy1s x126k92a"><div dir="auto" style="text-align: start;">ہم سب محتاج ہیں، اللہ کے حضور فقیر ہیں، اللہ ہمیں ہماری محتاجی کا شعور دئیے رکھے، ہم سب کو محتاجوں کی محتاجی سے بچائے، آمین</div></div></span></div></div></div></div></div>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-21780163388576773872023-11-11T11:55:00.006+05:002024-01-24T14:53:41.796+05:00مقامِ شکر<p style="text-align: right;">اور یہ تو مقامِ شکر ہے کہ آپ کسی انسان سے کوئی امید رکھیں ، وہ اس امید کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی توڑ دے۔۔<br />الحمدللہ<br /></p>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-89531374970942627142023-07-31T12:22:00.006+05:002024-01-24T14:54:15.800+05:00شکر و عاجزی کا غرور<p style="text-align: right;"> </p><div aria-haspopup="true" aria-label="Show details" class="ajy" data-tooltip="Show details" id=":2oo" role="button" style="text-align: right;" tabindex="0"><img alt="" class="ajz" src="https://mail.google.com/mail/u/0/images/cleardot.gif" /></div><div id=":2oa" style="text-align: right;"><div class="qQVYZb"></div><div class="utdU2e"></div><div class="lQs8Hd"></div><div class="btm"></div></div><div class="aHl" style="text-align: right;"></div><div id=":2on" style="text-align: right;" tabindex="-1"></div><div dir="auto" style="text-align: right;">ایک
غرور عاجزی کا اور شکرگزاری کا بھی ہوتا ہے، ادھر کسی نے اپنے کسی کمزور
لمحے میں اپنی کسی مشکل کا ذکر کیا نہیں ، اور ہم نے کہا، بھئی ہمیں تو
اللہ نے بہت نوازا ہے ہم تو شکر گزار ہیں اس کے۔<div dir="auto">شکر گزاری تو پتا نہیں اسے پتھر دلی ضرور کہا جاتا ہے۔</div></div>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-80259311698919166352023-03-30T12:42:00.001+05:002023-03-30T12:42:06.251+05:00۔۔۔ہرا بھرا گھر تھا۔۔<p style="text-align: right;"><span style="font-size: small;"> <span class="gmail_default" style="font-family: comic sans ms, sans-serif;"></span>"صبح دم جو دیکھا تھا، کیا ہرا بھرا گھر تھا</span></p><p style="text-align: right;"><span style="font-size: small;">ڈانٹتی ہوئی بیوی، بھاگتے ہوئے بچے</span></p><p style="text-align: right;"><span style="font-size: small;">رسیوں کی بانہوں میں، جھولتے ہوئے کپڑے</span></p><p style="text-align: right;"><span style="font-size: small;">اک طرف کو گڑیا کا ادھ بنا گھروندا تھا</span></p><div dir="auto" style="text-align: right;"><div dir="auto"><p><span style="font-size: small;">دور ایک کونے میں سائیکل کا پہیہ تھا" <br /></span></p></div><div dir="auto"><p><span style="font-size: small;">سائکلیں تھیں بھائیوں کی، (وہ سرخ سائیکل بھی جس کے چلتے پہیے میں میرا پیر آیا تھا اور ابو سے میرے بھائی کو رہ رہ کر ڈانٹ پڑی تھی)</span></p></div><div dir="auto"><p><span style="font-size: small;">مرغیوں کے ڈربے تھے</span></p></div><div dir="auto"><p><span style="font-size: small;">کابکیں تھیں پنجرہ تھا</span></p></div><div dir="auto"><p><span style="font-size: small;">سیزر
جو ہماری آمد سے پہلے دنیا سے گزر گیا مگر ابا کا لیجنڈری پالتو جس کے
فلموں میں کام کرنے ، زخمی ہیرو کو تانگے پر لے جانے، تمیز تہذیب کے قصے
بعد میں پیدا ہونے والوں تک کو سنائے جاتے رہے، کہ تہاڈے توں بوہتی عقل تے
سیزر نوں سی۔۔۔ پھر جمی، ڈیزی۔۔۔</span></p></div><div dir="auto"><p><span style="font-size: small;">انگور کی بیلیں تھیں، جامن امرود انار شہتوت کے پیڑ تھے</span></p></div><div dir="auto"><p><span style="font-size: small;">سبزیوں کی کیاریاں تھیں، پودینہ اور لیموں جو محلے بھر میں بانٹے جاتے تھے</span></p></div><div dir="auto"><p><span style="font-size: small;">گلاب
کی جھاڑیاں اور موتیا، جو ہر صبح جمع کرکے ابا رومال میں رکھتے، واحد
سنگھار جو میں نے امی کو کرتے دیکھا ، بالیوں میں موتیا کے پھول۔۔۔ اور جو
ابا ہر آنے والے مہمان کو بطور تحفہ دیتے، موتیا کے پھول۔۔۔</span></p></div><div dir="auto"><p><span style="font-size: small;">صحن جہاں کنک (گندم) چھان پھٹک دھو کر پھیلائی جاتی اور پرندوں اور ہمارے کھیل کا سامان ہوتی۔ </span></p></div><div dir="auto"><p><span style="font-size: small;">سہ پہر کو پڑوس کے بچے اسی صحن میں ادھم مچاتے، لڑتے اور لڑائیوں کو اپنے اماں ابا سے چھپاتے ۔</span></p></div><div dir="auto"><p><span style="font-size: small;">شام
کو اسی صحن میں چارپائیاں بچھتیں اور بجلی جانے پر ابا امی کوئی تاریخ سے
قصے یا حالات حاضرہ ۔۔۔ یا پھر بڑے بھائی خوب ڈرائونی سی کہانیاں سنایا
کرتے۔۔۔</span></p></div><div dir="auto"><p><span style="font-size: small;">کھلا سا صحن جو الیکشنوں کے دنوں میں کارنر
میٹنگوں کے لیے اور محلے کی کسی بھی بیٹی کی شادی کے لیے ابا پیش کر دیا
کرتے تھے۔ زکوۃ کمیٹی کے لیے بھی، جہاں اسی صحن میں بیٹھی کتنی خالہ جی
ماسی جی اماں جی کے لیے ہمیں ہدایت ملتی تھی کہ سنو مدعا اور لکھو درخواست،
بخدمت جناب چئیرمین زکوۃ کمیٹی۔۔۔</span></p></div><div dir="auto"><p><span style="font-size: small;">بڑی عید پر مسجد
کمیٹی کی مشترکہ قربانی بھی اسی صحن میں ہوتی ، انفرادی یا مشترکہ ان
جانوروں کی خدمت بھی ابا کے ذمہ، تکبیر ہمیشہ ابا پڑھتے اور امی باقیوں کو
شرم دلاتیں، انور صاحب نے لے جانا اے سارا ثواب تے تسی ساریاں نے پل صراط
تے گائے بیل دی پوچھل پھڑدے رہ جانا اے۔</span></p></div><div dir="auto"><p><span style="font-size: small;">ماسی جس کی
صفائی پر میری بہن یا میں کبھی سکول سے آکر کہتے، آج ماسی مٹی بھرے پوچے
لگا کر گئی ہے فرشوں پر تو امی کا جواب ملتا، گھر تہاڈا اے، ماسی دا نئیں۔
ایسے یاد رہے ہیں یہ بالواسطہ تربیت بھرے جواب کہ کچھ بھی کر لوں ، آج تک
کمی کجی اپنے عمل میں ہی نظر آتی ہے کہ پہلے اپنا گھر آپ صاف کرنا اے۔۔۔</span></p></div></div>
Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-20603087096585700792023-03-09T11:56:00.007+05:002023-03-09T11:56:41.212+05:00اظہار کا سفر<div style="text-align: right;"> <span class="x193iq5w xeuugli x13faqbe x1vvkbs x1xmvt09 x1lliihq x1s928wv xhkezso x1gmr53x x1cpjm7i x1fgarty x1943h6x xudqn12 x3x7a5m x6prxxf xvq8zen xo1l8bm xzsf02u x1yc453h" dir="auto">اظہار
کا یہ سفر عاجزی اور التجا کا سفر ہے ۔۔۔۔۔ آنے والے لفظ، اترنے والے خیال
اور طاری ہونے والی کیفیت پر کسی کا کوئ اختیار نہیں کہ وہ جب اور جیسا
چاہے انھیں اپنے دائرہ_اظہار میں لے آئے۔ یہ سب توفیق کی کرشمہ سازی ہے ۔۔۔
ایک ہی بات۔۔۔۔۔ ایک ہی ماحول اور ایک ہی منظر یا فضا کو توفیق_بیان یکسر
بدل دیتی ہے ۔۔۔۔ تو معاملہ جب توفیق کا ہو تو کیسا اختلاف؟ یہ عاجزی و
التجا کا سفر ہے ۔۔۔۔ عاجزی و التجا کا سفر ۔۔۔</span></div><p style="text-align: left;"><span class="x193iq5w xeuugli x13faqbe x1vvkbs x1xmvt09 x1lliihq x1s928wv xhkezso x1gmr53x x1cpjm7i x1fgarty x1943h6x xudqn12 x3x7a5m x6prxxf xvq8zen xo1l8bm xzsf02u x1yc453h" dir="auto">عزم بہزاد<br /></span></p>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-89891544761799144292023-02-24T12:03:00.002+05:002023-02-24T12:03:05.026+05:00سلام ان پر۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم<p style="text-align: right;">آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایسے لوگ داخل ہوں گے جن کے دل چڑیوں کی طرح ہوں گے۔<br /><br /> <span class="x193iq5w xeuugli x13faqbe x1vvkbs x1xmvt09 x1lliihq x1s928wv xhkezso x1gmr53x x1cpjm7i x1fgarty x1943h6x xudqn12 x3x7a5m x6prxxf xvq8zen xo1l8bm xzsf02u x1yc453h" dir="auto">اور
ان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بے شمار اور لگاتار درود و سلام جو اس بچے
کے پاس اس کی دلجوئی کی خاطر دن بھر بیٹھ رہے تھے جس کی پالتو چڑیا مر گئی
تھی، وہ جو کسی یتیم کے سامنے اپنی اولاد کو محبت سے پکارنے سے منع فرماتے
تھے، درود و سلام ان پر جنہیں ہر کسی کے دل کی سلامتی کا اس قدر خیال تھا،
درود و سلام ان پر کہ جنہوں نے ممتاز ترین ہو کر بھی ہر امتیاز کو رد کیا،
جنہوں نے وجہ وجود کائنات ہو کر بھی عام رہنا پسند کیا کہ ہم سے عامی ان
سے نسبت رکھ سکیں، جنہوں نے رعب نبوت سے کانپنے <span><a tabindex="-1"></a></span>والے
بدو سے فرمایا تھا، مت ڈرو کہ میں اس غریب ماں کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت
پکا کر کھاتی تھیں۔ درود وسلام ان پر، مدینہ میں ایک دیوانی بڑھیا جن کا
ہاتھ تھام کر دیر تک ان کے کان میں اپنی دیوانگی بھری باتیں کرتی رہتی اور
آپ مسکراتے رہتے، سنتے ہی رہتے۔ ایک روز حضرت عمر نے اس عورت کا ہاتھ جھٹک
کر پرے کیا اور کہا یا رسول اللہ یہ تو پاگل ہے، اس کی تو شہر بھر میں
کوئی بھی نہیں سنتا۔ آپ نے فرمایا کوئی بھی نہیں سنتا تو کیا میں بھی نہ
سنوں۔ سلام ان پر کہ جنہوں نے طائف میں رب ذوالجلال کو رب مستضعفین کہہ کر
پکارا۔ کمزوروں کا رب، بے نوائوں کا رب، تنہا رہ جانے والوں کا رب ۔ درود و
سلام ان پر ، میرے ماں باپ قربان ان پر کہ جنہوں نے انصار سے فرمایا کہ
کیا تمہیں قبول نہیں کہ مکہ والے سارا مال غنیمت اونٹ بکریاں لے جائیں اور
تم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو۔</span></p>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-1180061485788580972023-02-24T12:02:00.000+05:002023-02-24T12:02:11.840+05:00 آواز سی آئی میرے قدموں پہ قدم رکھ۔۔۔<p style="text-align: right;"> آواز سی آئی میرے قدموں پہ قدم رکھ۔۔۔</p><div class="gmail_default" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; font-size: small;"><div><div dir="auto"><div id="m_-466819419767859354m_-7757015927596330476m_4765315480453380852m_-126490906970239592m_1828767712978777788m_6112680826401025125m_7599221249217674546gmail-jsc_c_a6n"><div><div><span dir="auto"><div><div dir="auto" style="text-align: start;">جب تک یاد زندہ ہے،ساتھ زندہ ہے۔ </div><div dir="auto" style="text-align: start;">دل و وجود کا کوئی حصہ جانے والوں کے ساتھ چلا جاتا ہے تو وہیں جانے والوں کا کوئی حصہ ہمارے ساتھ زندہ رہتا ہے۔</div><div dir="auto" style="text-align: start;">جب
ساری دنیا ہی جھٹلاتی نظر آئے، دیکھ کر اَن دیکھا کرتی نظر آئے، نفی کرتی
نظر آئے، جب خود سے ہی اپنا ہی اعتبار اٹھتا محسوس ہوتا ہو ، تو یہ انہی کے
وسیلے ملا زندہ یقین ہے جو ڈھارس دیتا ہے،قدموں کو راہ اور آرزو کو فلاح
کی دعا دیتا ہے۔ </div><div dir="auto" style="text-align: start;">یاد دلاتا ہے You are an infinite player</div></div><div><div dir="auto" style="text-align: start;">عکس: ایک خط الطاف فاطمہ آپا کا</div><div dir="auto" style="text-align: start;">اور ایک ای میل سر عزم بہزاد کی<br /><br /><br /></div><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjMhb5N33V9BxlOkngQQLgZQN3whpRVqs-fQq7Hm8FXlh_IzyozeHsgsfTtkbvhv6iy2P0zfr5m6X0NJ-nu-xGrgGXhpDIsAezdUwFhWTZTSRmV7M1alwrKRr54vwnBvPHiVC-2nrKzCy25bATDr3x7peqslcMAP6wRYHyBaVMlvxuP8KSi3ckiKFbQ5A/s731/%DB%B1.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="665" data-original-width="731" height="291" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjMhb5N33V9BxlOkngQQLgZQN3whpRVqs-fQq7Hm8FXlh_IzyozeHsgsfTtkbvhv6iy2P0zfr5m6X0NJ-nu-xGrgGXhpDIsAezdUwFhWTZTSRmV7M1alwrKRr54vwnBvPHiVC-2nrKzCy25bATDr3x7peqslcMAP6wRYHyBaVMlvxuP8KSi3ckiKFbQ5A/s320/%DB%B1.jpg" width="320" /></a></div><br /><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgqCCvNIsTadsLPxFDnJbi116C4GU6nC0CrfcGKGx7dfgov08p4Feojn6Ht19scHEmd6FnWzOYjlMoxSGtywD6yHt1ToKKayD2zbHW6y9TJELZmedKp6DQ6cOvFxEkxfbzkT6Q8rnWRPDCX0oC2xbyy3AxxJDIxSyoC0AJpscV3Vqrq2j21LodrqKOxCw/s746/%DB%B2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="314" data-original-width="746" height="135" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgqCCvNIsTadsLPxFDnJbi116C4GU6nC0CrfcGKGx7dfgov08p4Feojn6Ht19scHEmd6FnWzOYjlMoxSGtywD6yHt1ToKKayD2zbHW6y9TJELZmedKp6DQ6cOvFxEkxfbzkT6Q8rnWRPDCX0oC2xbyy3AxxJDIxSyoC0AJpscV3Vqrq2j21LodrqKOxCw/s320/%DB%B2.jpg" width="320" /></a></div><br /><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh24BG12cTItnkRnZjT4-DycbthPkb1OKbRMdr7rPuNE-D8mbSqSV55HdQkRPi5-RicD6gfuDkNTMsxpH-2r_hLO7pxbWIyyQAcXcagnMnRbhImjYy4yOTH4SjGJkYfYjqSGnJRYcuRnDDyTWuj4fvhEBpy0uNwYbXyAJ6cCkoG9lZ8HOlxh-dd_GD11Q/s960/%DB%B3.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="960" data-original-width="540" height="320" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh24BG12cTItnkRnZjT4-DycbthPkb1OKbRMdr7rPuNE-D8mbSqSV55HdQkRPi5-RicD6gfuDkNTMsxpH-2r_hLO7pxbWIyyQAcXcagnMnRbhImjYy4yOTH4SjGJkYfYjqSGnJRYcuRnDDyTWuj4fvhEBpy0uNwYbXyAJ6cCkoG9lZ8HOlxh-dd_GD11Q/s320/%DB%B3.jpg" width="180" /></a></div><br /><br /></div></span></div></div></div></div></div>
</div>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-45634727224596163692023-01-19T14:03:00.005+05:002023-01-19T14:03:42.702+05:00ہندسے اور لفظ<p style="text-align: right;">اعداد و شمار، نمبرز اور فگرز، نتیجہ ہوتے ہیں، مقصد نہیں۔ مقصد الفاظ کی
صورت بیان ہوتا ہے، نتیجہ ہندسوں کی صورت۔۔۔۔۔<br />مگر ہم نے ہندسوں کو مقصد اور
لفظوں کو حتمی نتیجہ سمجھ لیا ہے۔<br /> </p>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-78165846525965644522022-10-17T18:23:00.002+05:002023-01-19T14:02:52.423+05:00راہ نما<div style="text-align: right;"><span style="font-size: small;">کون ہوتا ہے لیڈر۔۔۔ وہ جو رہنما ہو، راہ نما۔۔۔ یعنی نامعلوم (راہ، حالات ، مستقبل) کی طرف سب سے پہلے قدم اٹھانے والا، اس راہ، حالات، مستقبل کو موافق بنانے والا۔۔۔ پہلا جو نامعلوم کے خوف پر غالب آئے۔ جس کے پاس خواب ہوں، وہ جس کے پاس مستقبل کا وژن ہو۔۔۔</span></div><div class="gmail_default" style="font-family: "comic sans ms", sans-serif; text-align: right;"><span style="font-size: small;">وہ جو اپنے مفاد کو ہمارے عام تر عوام کے مستقبل پر قربان کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔<br /></span></div><div class="gmail_default" style="font-family: "comic sans ms", sans-serif; text-align: right;"><span style="font-size: small;">جو ’’میں‘‘ کو ’’ہم‘‘ پر قربان کر دے۔۔۔<br /></span></div><div class="gmail_default" style="font-family: "comic sans ms", sans-serif; text-align: right;"><span style="font-size: small;">جو آگے تک دیکھ سکتا ہو، کیوں کہ وہ آگے ہوتا ہے، بصارت میں ، بصیرت میں۔<br /></span></div><div class="gmail_default" style="font-family: "comic sans ms", sans-serif; text-align: right;"><span style="font-size: small;">اور اس قربانی کے نتیجے میں عام تر عوام اس کو اپنا اعتماد دیتے ہیں، اس کے وژن کو اپناتے ہیں اور اسے حقیقت بنانے کی خاطر خون پسینہ ایک کرتے ہیں۔ خود کو فخر سے ان کا فالوور کہتے ہیں۔<br /></span></div><div class="gmail_default" style="font-family: "comic sans ms", sans-serif; text-align: left;"><span style="font-size: small;"><br /></span></div><div class="gmail_default" style="font-family: "comic sans ms", sans-serif; font-size: small; text-align: right;"><span style="font-size: small;">مگر۔۔۔۔ بات یہ ہے کہ نہ وژن ہے، نہ دانش نہ حکمت، نہ ہی بنیادی عقل۔۔۔ یہ کہ یہ عام تر عوام یہ کیڑے مکوڑے ہی زندہ نہ رہے تو طاقت و حکومت کا شوق کس پر پورا ہوگا۔۔۔</span><br /></div><div class="gmail_default" style="font-family: "comic sans ms", sans-serif; font-size: small; text-align: left;"><br /></div><div class="gmail_default" style="font-family: "comic sans ms", sans-serif; font-size: small; text-align: left;"><br style="text-align: right;" /></div>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-28798648617590652522022-07-18T11:17:00.006+05:002022-07-18T11:17:54.544+05:00زندگی<p style="text-align: right;"> زندہ لوگوں میں زندگی نظر آنی چاہیے، آنکھ کے آنسو کی صورت سہی، ہونٹوں کی
ہنسی کی صورت سہی، ماتھے کی شکن کی صورت سہی، زندہ لوگوں میں زندگی نظر آنی
چاہیے۔۔۔</p>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-23603573332415976962022-07-08T11:59:00.003+05:002022-09-23T16:56:56.164+05:00احمد جاوید صاحب کی ایک گفتگو بلکہ تنقید۔۔۔۔<div style="text-align: right;"><span>کچھ مشکل باتیں، سوشل میڈیا کے بارے ، سوشل میڈیا پر ہی۔۔۔</span><br /></div><div style="text-align: right;"><span>احمد جاوید صاحب کی ایک گفتگو بلکہ تنقید۔۔۔۔</span><br /></div><div style="text-align: right;"><span>"وہم کہ آج کا عام آدمی اتنا جانتا ہے کہ جو پچھلے دور کا عالم نہیں جانتا تھا مگر اس جاننے کی تفصیل پوچھی جائے تومعلوم ہو کہ جاننے کا وہم تو ہے مگر جاننے کا نتیجہ اسے نصیب نہیں ہوا۔۔۔"</span><br /></div><div style="text-align: right;"><span>یہ وہم کیوں ۔۔ کیوں کہ رسائی بڑھ گئی ہے۔۔ مگر جذب کے لیے درکار وقت ہم صرف کرنا نہیں چاہتے۔۔۔ کسی نے لکھا تھا، "انسان تین چیزوں سے خائف رہتا ہے: موت، دوسرے لوگ، اور خود اس کا اپنا ذہن۔۔۔ "</span><br /></div><div style="text-align: right;"><span> اپنا ذہن to which I have to forever throw scraps to feed on, or it would devour me the moment it isn't chewing on something else... and those scraps give me the illusion of knowledge :) </span><br /></div><div style="text-align: right;"><span>علم کا وہم، علمی روایات سے بے تعلقی، اور اس وہم اور بے تعلقی کے باوجود علم کا غرور، ادب و مروت و اخلاق سے بداخلاقی، بے مروتی اور احساس سے بے حسی کی جانب سفر،بدلحاظی اور بدلحاظی کو جرات اور حق گوئی سمجھنے کا گمان، ہر کسی پر شک اور بدگمانی، دوسروں کی انفرادیت کو تسلیم کرنے سے انکار، برداشت و تحمل کی کمی، انسان کو انسان نہ سمجھنا (خامیوں اور خوبیوں کا مجموعہ انسان، ہمارے ایک استاد محترم کا کہنا ہے کہ غلطی کرنا انسان کا حق ہے، غلطی کا شعور ذمہ داری، اور یہ ایسا آزاد کر دینے والا خیال ہے)، اختلاف کو دشمنی بنا لینے کا رحجان، ’’میں‘‘ اور بس ’’میں ‘‘ کا پہاڑہ، شہرت پسندی، اور پھر محبتوں اور عقیدتوں میں مبالغہ آمیزی جن سے عقیدت ہے انہیں خدا سمجھ لینے کا رحجان اور پھر کسی روز انہی خدائوں کو ہم لوگ ہی سر سے اٹھا کر زمین پر پٹخ بھی دیتے ہیں،</span><br /></div><div style="text-align: right;"><span>اپنی پہچان کے بغیر اپنی انفرادیت کا اعلان (رزق روزی کے حصول کا ذریعہ آپ کی پہچان نہیں ہوتا، ہم میں سے کتنے اپنا تعارف بغیر اپنی تعریف کے اور بغیر اپنے پروفیشن اور ڈگری کے بیان کے کروا سکتے ہیں؟)، کھوکھلی شخصیتیں جن کا بیان سوا چیزوں سے پہچان اور سوائے ظاہر اور ظاہر کی کامیابی کے کچھ نہیں، بے جا اظہارِ ذات، اظہارِ ذات کی حد سے بڑھی خواہش بھی تکبر ہوتی ہے (یہی آج کے اس سوشل میڈیا کی تصویر ہے)۔ </span><br /></div><div><br /></div><div style="text-align: right;"><span>پھر غالب کہہ گئے کہ مے سے غرض ہے کس رُوسیاہ کو۔۔۔۔اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے۔۔۔ اک گونہ بے خودی، اڈکشن یا لت کی تعریف یہی ہے۔۔۔۔</span><br /></div><div><span>something which numbs the pain..</span><br /><span>something which traumatized people seek to numb their unresolved traumas and unrecognized pains, which toxic culture imposes on them.. and in result it's mindlessness that we seek and not mindfulness what we need...</span><br /><span>we shy away from our authentic selves... </span><br /></div><div style="text-align: left;"><span><span>authentic self....<br /></span></span><div style="text-align: right;"><span><span> </span>اپنی اصل، اپنی حقیقت کا شعور، اپنی پہچان۔۔۔ وہ خود شناسی جو خداشناسی میں ڈھلتی ہے۔۔۔</span><br /></div></div><div><span>this shair talks about seeking and reclaiming that authenticity .. </span><br /></div><div style="text-align: right;"><span>دل ایسی چیز کو ٹھکرا دیا نخوت پسندوں نے</span><br /></div><div style="text-align: right;"><span>بہت مجبور ہو کر ہم نے آئینِ وفا بدلا</span><br /></div><div style="text-align: right;"><span>مشرق اور مغرب، احمد جاوید صاحب اور ڈاکٹر گیبر میٹے ایک نقطے پر آملے ہیں.</span><br /></div><div><br />https://www.youtube.com/watch?v=Gku5_aL5f5o<br /></div>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-9042981439699602522022-06-13T14:37:00.005+05:002022-07-01T21:22:54.352+05:00سر عزم بہزاد کی ای میل ۔ ۳<div style="text-align: right;"></div><div class="gmail_default" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; font-size: small; text-align: right;"><div style="text-align: right;">واصف صاحب کہتے ہیں، اپنی زندگی میں کوئی ایک ایسا شخص ضرور ڈھونڈ لینا جو تمہیں خود تم سے زیادہ جانتا ہو۔<br /></div><div class="gmail_default" dir="rtl" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; font-size: small; text-align: right;">میری
خوش قسمتی کہ مجھے دو ایسے لوگ ملے، اور اس کو کیا کہا جائے سوائے اللہ کی
مرضی کہ دونوں ہی اس جہان سے رخصت ہوگئے۔ الطاف فاطمہ اور عزم بہزاد۔۔۔
دو چلتے مسافر۔۔۔<br /></div><div class="gmail_default" dir="rtl" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; font-size: small; text-align: right;">وہ
کہ جنہیں وہ خوبیاں بھی دکھائی دیتی تھیں جو کبھی کسی اور کو تو کیا خود
کو بھی نظر نہ آئی تھیں۔ اور وہ جنہیں خامیاں سمجھتی رہی انہیں وہ بھی
خوبیاں بن کر نظر آتی تھیں۔<br /></div><div class="gmail_default" dir="rtl" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; font-size: small; text-align: right;">کیسے صیقل سچے آئینے تھے، بس ایک لمحہ لگتا تھا جن کے سامنے اور اپنا آئینہ دل بھی صاف ستھرا ہو جاتا تھا۔<br /></div><div class="gmail_default" dir="rtl" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; font-size: small; text-align: right;">ہوتا
بس یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ایک لکیر کھینچ دیتے ہیں،اب آپ چاہے لکیر پیٹیں مگر اس سے پیچھے جانے کی اجازت نہیں، ایک معیار طے کردیتے
ہیں، پھر آپ کچھ بھی کرلیں اُس معیار سے نیچے اترنے کی
اجازت نہیں۔۔۔ آگے اور اوپر ہی جانا ہے۔۔۔<br /><br /></div><div class="gmail_default" dir="rtl" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; font-size: small; text-align: right;">14جولائی2010<br /></div><div class="gmail_default" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; font-size: small; text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اللہ تمھیں بہت خوشیاں دے۔</span><div><span style="font-size: large;">مجھے تمھارا تہذیب یافتہ اور محتاط رویّہ بہت پسند ہے۔</span></div><div><span style="font-size: large;">ہر چند کہ فی زمانہ اتنی احتیاط آدمی کو دنیا کی "عارضی" خوشیوں</span></div><div><span style="font-size: large;">سے دور رکھتی ہے یا کر دیتی ہے ، لیکن ٹھیک ہے کہ اس کے پیچھے </span></div><div><span style="font-size: large;">بڑے احکامات کی پیروی شامل ہے۔۔۔۔۔ تم نام ، مقام اور دولت و آسائش کی</span></div><div><span style="font-size: large;">پروا نہ کرو کہ اللہ نے یہ سب تمھیں دوسری شکل میں عطا کر رکھا ہے۔</span></div><div><span style="font-size: large;">تمھارا نام و مقام اللہ کی بارگاہ میں طے کیا جا چکا ہے۔ تم ایک لفظ سے </span></div><div><span style="font-size: large;">چڑتی ہو ، مگر میں پھر دہراوں گا کہ میرا رب کسی کو محروم نہیں رکھتا</span></div><div><span style="font-size: large;">اور اگر کوئی کسی پہلو سے محروم ہے تو اسے یا تو کسی اور خانے میں</span></div><div><span style="font-size: large;">نوازے رکھتا ہے یا پھر اس کا بہت بڑا اجر اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔ </span></div><div><span style="font-size: large;">رہی دولت و آسائش کی بات تو تمھارا کردار ، تمھارا استقلال ، تمھارا ضبط</span></div><div><span style="font-size: large;">اور تمھارا صبر تمھاری بہت بڑی دولت ہے ۔ ان صفات کو پانے کے لیئے </span></div><div><span style="font-size: large;">آدمی دنیا بھر کی دولت بھی لُٹا دے تو نہیں پا سکتا۔۔ </span></div><div><span style="font-size: large;">کبھی کبھی تمھیں مخاطب کرتے ہوئے میری آنکھیں شفقت بھرے آنسووں</span></div><div><span style="font-size: large;">سے بھر جاتی ہیں ، جیسے اس وقت۔۔۔ میرے یہ آنسو تمھارے لیئے مسلسل </span></div><div><span style="font-size: large;">دعائیں ہیں ، جنھیں اللہ ضرور قبول کرے گا۔</span></div><div><span style="font-size: large;">میں تمھیں اتنا ہی جانتا ہوں ، جتنا تم نے مجھے بتانا چاہا۔۔ یہ عجب تعلق ہے</span></div><div><span style="font-size: large;">جس کی بنیاد پاکیزگی اور احتیاط پر قائم ہے۔ </span></div><div><span style="font-size: large;">ہمیشہ خوش اور مطمئن رہنے کی کوشش کرو کہ ہم معمول سے زیادہ کچھ</span></div><div><span style="font-size: large;">نہیں ، ہمارے بارے میں تمام فیصلے لوح _محفوظ پر مکتوب ہیں۔</span></div></div>
</div>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-34590546511918317892022-04-11T13:57:00.007+05:002022-04-11T13:57:56.955+05:00غم<div style="text-align: right;"></div><div style="text-align: left;"></div><p style="text-align: right;"> حضرت یعقوب چالیس برس اپنے بیٹے حضرت یوسف کے لیے گریہ کرتے رہے۔<br /></p><p style="text-align: right;">غم، ناشکرگزاری نہیں ہوتا۔</p><p style="text-align: right;">غم اور آنسو اپنے مالک کے حضور اپنی بے بسی اور عاجزی کا اظہار ہوتے ہیں۔<br /></p><p style="text-align: right;">اپنے کچھ بھی نہ ہونے کا اقرار ہوتے ہیں۔<br /></p><p style="text-align: left;"><br /></p>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-43296218001153475922022-02-12T13:38:00.005+05:002022-02-12T13:38:33.716+05:00سوال<p style="text-align: right;"> سوال اکثر اوقات اپنی علمیت کے بیان کے لیے یا پھر دوسرے کی علمیت کے امتحان کے لیے کیا جاتا ہے۔</p>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-87207646652859295382021-10-15T15:40:00.000+05:002021-10-28T17:09:16.482+05:00سر عزم بہزاد کی ای میل ۔ ۲<p style="text-align: right;"><span dir="auto"><span><span>ایک پرانی ای میل مرشد کی۔۔۔سر عزم بہزاد کی </span><br><span> سر پر دھرے شفقت بھرے ہاتھوں میں سے ایک، میرے چراغوں میں سے ایک چراغ<br></span></span></span><br><span dir="auto"><span><span></span>15اکتوبر2008<br><br>اکّااااا !<br><span>تم بعض اوقات ضرورت سے زیادہ حساس ہوجاتی ہو، تمہاری یہ حساسیت تمہاری تعلیم اور حصولِ علم کی خواہش کی پیداکردہ ہے۔ یہ وہ حساسیت ہے جسے اکثروبیشتر تمہاری تنہائی بڑھا دیتی ہے۔<br>میں نے اپنی اب تک کی عمر میں بہت تعلق نبھائے، اتنے تعلقات کہ کوئی مجھے ’’تعلق دار’’ کوئی ’’شکارِ احباب‘‘ اور کوئی ’’ہمدرد دواخانہ‘‘ یا ’’حکیم سعید‘‘ کہا کرتا۔ میں یہ سب سنتا اور پھر اپنے گرد جمع ہجوم میں کھو جاتا۔ بہت دن بعد میرے اندر ایک احتساب نے جنم لیا جس کا تقاضا تھا کہ اپنے اطراف جمع بھیڑ کو غور سے دیکھو اور فیصلہ کرو کہ کتنے لوگ تم سے مخلص ہیں اور کتنے محض ’’خوش وقتی‘‘ کے لیے موجود ہیں؟<br></span><span> مجھے یہ جواب ملا کہ سب کے سب خوش وقتی کے لیے جمع ہیں اور اپنی اپنی اننگز کھیل کر بھاگ جائیں گے۔ میں جانے کس مٹی کا بنا ہوں کہ میں نے یہ سب جانتے ہوئے بھی نتیجہ وقت پر چھوڑا اور خوش وقتی کرنے والوں سے ’’خوش دلی‘‘ سے ملتا رہا۔ آخر وہ وقت آیا کہ سب ’’اسیرانِ خوش وقتی‘‘ ایک ایک کر کے منظر سے غائب ہونے لگے۔ اُن ہی دنوں ایک عجیب احساس میرے اندر پیدا ہوا (جو آج بھی پوری قوت سے موجود ہے) کہ مجھے نقصان کا صدمہ نہیں ہو پایا بلکہ بعض مقامات پر تو ایسا لگا کہ دل کا کوئی بوجھ ہلکا ہو گیا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ یہ احساس خاموشی سے میری شاعری کے اندر بھی در آیا اور جانے والوں کے میری غزلوں میں جا بجا اشعار نظر آنے لگے، مثلاً<br></span></span></span></p><p style="text-align: right;"><span dir="auto"><span>عمر کے حیرت خانے میں اب یہ سوچتے رہتے ہیں</span></span></p><p style="text-align: right;"><span dir="auto"><span>تم کو بھول گئے ہیں ہم یا جسم سے گرد اتاری ہے</span></span></p><p style="text-align: right;"><span dir="auto"><span>یا </span></span></p><p style="text-align: right;"><span dir="auto"><span>اب تو ملال بھی نہیں یعنی خیال بھی نہیں</span></span></p><p style="text-align: right;"><span dir="auto"><span>کون کہاں بچھڑ گیا تیز ہوا کے شور میں<span></span> </span></span></p><p style="text-align: right;"><span dir="auto"><span>یا</span></span></p><p style="text-align: right;"><span dir="auto"><span>شاخِ دل کی ہریالی خواب کا بیاں ٹھہری</span></span></p><p style="text-align: right;"><span dir="auto"><span>میں نے جس کو نم رکھا وہ زمیں ہی بنجر تھی<br><span> </span></span></span></p><p style="text-align: right;"><span dir="auto"><span>تو اکّا ان باتوں پر ملول نہ ہوا کرو اور اگر ملال زیادہ ہو تو ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھ لیا کرو۔</span></span></p><p style="text-align: right;"><span dir="auto"><span>میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔<br><span> </span>اللہ حافظ<br><span> </span></span></span><br></p>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-57839373122664568672021-08-18T23:04:00.006+05:002021-10-15T15:41:55.070+05:00ازلی تنہائی کا بیان ۔ سر عزم بہزاد کی ای میل ۔ ۱<p style="text-align: right;">واصف صاحب کہتے ہیں، محسن کے احسان کو یاد رکھنے سے اللہ کا شکر ادا ہوجاتا ہے۔ یہ کہ محسن کے ساتھ وفا کی جانی چاہیے۔ یہ تو عنایت ہے اللہ کی کہ زندگی کے ہر حصے میں کسی نہ کسی کو بھیجتا رہا ہے وہ، انسان، محسن، یا خیال یا لفظ، یا پھر کبھی کہیں حبس میں ہوا کا جھونکا ہی، یہی احساس دلانے کو وہ کبھی کسی کو تنہا نہیں چھوڑتا ، کبھی کسی کو بھولتا نہیں۔ <br />تو انہی میں سے ایک ہیں سر عزم بہزاد، ایک بے حد شفیق ہستی، ایک مہربان استاد ، ایک مخلص دوست، اور ایک بے حد نیک انسان۔۔۔ اس بلاگ کا نام انہی کے ایک مصرعہ پر رکھا گیا ہے۔۔۔<br />کسی شاخِ سبز کی چھائوں میں ، کوئی خار چبھ گیا پائوں میں <br />میں زیادہ دیر جو چپ رہا تو فضا کی چیخ نکل گئی <br />ایک بار انہیں بتایا تھا کہ میری بھتیجی مجھے اکّا کہتی ہے ، پھر بھتیجی تو چاہے بھول گئی ہو اکّا کہنا، انہوں نے یاد رکھا اور مجھے ہمیشہ اسی نام سے پکارا۔ارادہ ہے کہ ان کی کچھ ای میلز یہاں اس نیت سے شیئر کی جائیں کہ اور لوگوں کو بھی شاید اس سے کچھ رہنمائی مل سکے، اور یہ جانے والوں کے لیے بھی صدقہ جاریہ کا سبب بنے۔ اگر آپ یہ پڑھ رہے ہیں تو ان کے لیے دعائے مغفرت ضرور کیجئے گا۔ رب العزت اُن کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ <br /><br />ان کی28فروری 2008 کی ایک ای میل۔<br /><br />وعلیکم سلام اکّا<br />تمہاری یہ تحریر مجھے بہت بے ربط لگی۔ تم میرے مشوروں پر عمل کرنے کی بجائے اپنے آپ میں الجھتی جا رہی ہو۔ تمہارے سوالات حق بجانب ہیں لیکن یہ دنیا ہے، یہ ہر سوال کا مدلل جواب دینا جانتی ہے۔ تمہیں تمہارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے، لیکن یہ تمہاری تشفی نہیں کرسکیں گے۔ وجہ یہ کہ دنیا میں رائج جوابات مادی اور عقلی رویوں کی بنیاد پر ترتیب دئیے گئے ہیں جب کہ ہمارا قبیلہ دل کی آواز سننا چاہتا ہے، ایسی آواز جس پر سود وزیاں کا سایہ نہ ہو۔ تم نے کونڈولیزا رائس کی تقریریں نہیں دیکھیں، بش کو نہیں سنا، ڈک چینی کو نہیں دیکھا، یہ ایک خود ساختہ واقعے یعنی ٹریڈ سینٹر کے منہدم ہونے کے بعد جس جس طرح جھوٹ بول رہے ہیں اور دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کرتے جا رہے ہیں۔ تم ان کے چہروں پرکسی قسم کی شرمندگی نہیں دیکھو گی، کیوں کہ ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔ ہمیں ان کے جواب یوں مطمئن نہیں کرتے کہ ہمارا دل اسے تسلیم نہیں کرتا۔ اِس وقت ہمارے چاروں طرف یہی ہو رہا ہے ۔ ہر مرد اور ہر عورت، ہر بھائی اور ہر بہن ، ہر دوست اور ہر سہیلی سب، کوئی بش ہے تو کوئی رائس یا کوئی مشرف ہے۔ <br />دنیا اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے۔ آج كے انسان کو نفع اور نقصان کا فیصلہ نہیں کرنا پڑتا ، یہ تو شاید اس كے اندر فیڈ ہو گیا ہے۔ آج كے انسان کو جہاں فائدہ نظر آئے، وہاں بچھ جاتا ہے ، اور جہاں اس کا نقصان ( یعنی اسے کچھ دینا پڑے ) ہو، وہاں سے وہ اُکھڑجاتا ہے۔ اِس معاشرے میں اگر تم یہ چاہو کہ اگر تم کسی کوتنگ نہیں کرتیں تو کوئی دوسرا تمہیں بھی تنگ نہ کرے، بھول جاؤ، یہاں بھی تمہیں مایوسی ہو گی۔ لوگ تمہارا یہ احسان بھی نہیں مانیں گے کہ تم نے کبھی انہیں تنگ نہیں کیا ، کبھی زیر بار نہیں کیا ، وہ اِس كے باوجود تم سے وہ سب کچھ طلب کریں گے جن کا کبھی تم نے ان سے مطالبہ بھی نہیں کیا ہو گا۔<br />اب اسی بات کا دوسرا رخ دیکھو۔ میں نے تم سے کہا تھا ،ہم سب تنہا ہیں اور اپنی تنہائی کو فراموش کرنے كے لیے نت نئے مشاغل ایجاد کرتے رہتے ہیں ۔ اگر ذہنی رَو مادی ہو تو ہر مشغلے اور رشتے كے پیچھے کوئی جسمانی مادی فا ئدہ کارفرما ہو گا۔ اگر ذہنی رَو روحانی ( غیر مادی ) ہو تو ہر مشغلہ اور ہر رشتہ تسکین قلب کا متقاضی ہو گا۔ تم اور ہم اِس دوسرےقبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ قبیلہ دنیا کی نگاہ میں زیاں کار سمجھا جاتا ہے۔ اِس مسئلے کو غور سے دیکھو تو ہے یہ تنہائی کا مسئلہ ہی ، اُدھر مادی اور جسمانی مفاد اور اِدھر عزتِ نفس اور تسکین قلب کا مطالبہ۔<br />اکّا ! تم اپنی تنہائی سے لڑ رہی ہو ،مسئلہ ایڈجسمنٹ کا ہے ، تم اِس لڑائی میں اپنا محفوظ مورچہ نہیں بنا پا رہیں، وجہ ایسی مصروفیات کی کمی جس میں کچھ دیر کو آدمی اپنی تنہائی کو بھول جائے۔ یہ رشتے جو ہمارے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں، ان سے محبت اِس لیےہوتی ہے کہ یہ ہماری تنہائی بھلانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ہم ان میں گُھل مل کر اپنی تنہائی کو فراموش کیے رہتے ہیں۔ تنہائی کو بھلانے یا صیقل کرنے کا بہترین ذریعہ اپنے آپ کو دریافت کرنا ہے۔ یہ سیلف ڈسکوری کا ہنر شاعروں كے پاس سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ جو دِل پہ گزرتی ہے، وہ تو رقم کرتے ہی ہیں لیکن اِس سے بھی آگے وہ بھی رقم کر جاتے ہیں جو دِل پر گزرنے سے وجود پر رقم ہوتی ہے ۔ یہ ہے اس ازلی تنہائی کا بیان جو ہم سب کا مقدر ہے۔<br />تمہیں اب کوئی ملازمت کر لینی چاہیے، یہ میں یوں کہہ رہا ہوں کہ ہم جیسے زیاں کاروں کو دنیا کا محتاج نہیں ہونا چاہیے ۔<br /> مت گھبراؤ اِس دنیا سے ، اِس پر سوالات بھی نہ کرو۔ اسے بس تیسری آنکھ سے دیکھتی جاؤ اور جہاں مناسب ہو وہاں کوئی جملہ بھی ٹکا دو۔ اپنی اِس بات کا اختتام اپنے اِس شعر پر کروں گا :<br />اِس رونق میں شامل سب چہرے ہیں خالی خالی<br />تنہا رہنے والے یا تنہا رہ جانے والے<br />اللہ تمہیں بہت خوشیاں دے ۔<br />اللہ حافظ<br /><br /><br /></p>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-79657800168514469592021-03-19T12:01:00.010+05:002022-06-13T14:45:37.067+05:00مہمانوں سے مہمان سرا کچھ کہتی ہے<div style="text-align: right;"><span style="font-size: medium;"><br /></span></div><div class="gmail_default" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; text-align: right;"><span style="font-size: medium;">پچھلے
برس یہی دن تھے، یا ہفتے بھر بعد یہی دن آنے کو تھے، کہ یہ سارا ہجوم
انسانوں کا کچھ ہفتے کو منظر سے ہٹ گیا تھا، اور فطرت نے کھل کر سانس لی
تھی۔۔۔ وہی سڑکیں جہاں تیزرفتار ٹریفک میں کئی بار بلیوں اور پرندوں کے
لاشے بے طرح کچلے جاتے ہیں، وہ سڑکیں خالی تھیں اور ان پر پرندوں کی ڈاریں
آزادی سے اترتی تھیں۔ گرد اور دھویں میں اٹا مٹیالا سا آسمان ایک نیلگوں
وسعت میں ڈھل گیا تھا جو نگاہ کو عجب سکون دیتی تھی۔ سڑک کنارے درختوں کے
جھنڈ جن کے پتے ہمہ وقت گرد دھول میں اٹے رہتے تھے، دھلے دھلائے خوشی سے
دمکتے تھے۔ مہمانوں سے مہمان سرا کچھ کہتی تھی، کہتی ہے۔۔۔ اور مہمان ایسی
افراتفری میں ایسی بھاگم دوڑ میں ہیں کہ پل بھر کی فرصت نہیں۔ پھر ایک دن
ایسا آتا ہے کہ ساری مصروفیتیں پل بھر میں بے معانی ہوجاتی ہیں، فنا ہو
جاتی ہیں۔ ایک ندا آتی ہے اور اَن چاہے سہی یا دل سے، سب سامان یہیں چھوڑ
چھاڑ جانا ہوتا ہے، حاضر سائیں!</span></div><div class="gmail_default" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; text-align: left;"><span style="font-size: medium;"><br /></span></div><div class="gmail_default" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; text-align: right;"><span style="font-size: medium;">البتہ
کہانی یہ اس مہمان سرا کی خالی سڑکوں اور اس کے کناروں سر اٹھائے کھڑے ان
درختوں کی ہے جو کالج یونیورسٹی اور کام وام کے سب دنوں کے ساتھی ہیں، اتنے
کہ اب تو نہر کنارے اگے ان درختوں کی ایک جھلک سی بھی اس علاقے کی پہچان
کروا دیتی ہے۔ کہاں کہاں آموں کے جھنڈ ہیں، جو فروری کے جاتے جاتے سونے
جیسے بُور سے لد جاتے ہیں جیسے گہنے پہن لیے ہوں۔ کدھر جامن کی قطاریں ہیں،
کہیں وہ بید مجنوں جو گرمیوں کی لو میں کسی مجنون کی طرح بال بکھرائے
جھومتے ہیں، سنبل کہ سرخ پھولوں سے لدے یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے کوئی سرخ
سرخ ہتھیلیاں پھیلائے دعاگو ہو، ڈھاک تلے بچھے سرخ قالین، گُل مہرکے نازک پتے اور پھول، وہ
گولہڑ کا حیران کرنے والا درخت، کئی فٹ کے دائرے میں پھیلے ہوا میں بارش کی
دُھن بجاتے رین ٹری، ارغوانی پھولوں سے لدے کچنار، شیشم، اشوک، ارجن، نیم کے ننھے سفید پھول، دھریک کا کاسنی غبار اور اس کی خوشبو، تالیاں پیٹتے پیپل، سراٹھائے سفیدے ۔۔۔ اپریل کے بعد سے جون جولائی تک بنفشی رنگ کے پھولوں سے لدے ہوئے پیڑ جن کا نام مجھے اب معلوم ہوا، جرول، کریپ مرٹل۔۔۔ اور کئی ایسے ساتھی جن کے
ناموں سے میں واقف نہیں، اپریل سے جون تک سفید پھولوں سے لدے پیڑ جیسے کسی نے زمین پر بڑے بڑے گلدستے لگا دئیے ہوں۔۔۔ وہ جن
کی شاخوں پر بہار آتے ہی گلابی پھول آجاتے ہیں اور پتا ایک نہیں ہوتا۔
املتاس جس کے نوخیز پتوں سے چھن کر آتی سہ پہر کی دھوپ کسی اور جہان کا
پتہ بتاتی ہے، جس کی باریک تار سی صورت کی کلیاں ڈھلتی دھوپ میں جھلملاتی
ہیں اور پھر یکایک ایک صبح وہ روشنی سے لد جاتا ہے۔ کہیں کہیں اپنی جٹائیں
پھیلائے سادھو برگد۔ اکتوبر آتے ہی کئی سڑکوں پر پھیلتی ایک پُراسرار مہک،
السٹونیا کی۔ پھر جنگلی گلاب کی بیلیں، بوگن ویلیا کے پھولوں کی برسات۔ مئی جون کے مہینوں میں مال پر زرد رین للی کی بہاریں۔ کیسا کتنا بھرپور حُسن ہے۔۔<br /></span></div><div class="gmail_default" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; text-align: left;"><span style="font-size: medium;"><br /></span></div><div class="gmail_default" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; text-align: right;"><span style="font-size: medium;">ایک
مٹی، ایک ہوا، ایک پانی، مگر ہر ایک کا رنگ جدا ہے، ہر پھل کی صورت اور
ذائقہ جدا ہے۔ اور کوئی کسی سے مسابقت میں نہیں ہے، سب اپنے اپنے عالم میں
سرنگوں محو ثنا ہیں جیسے۔ اپنے رنگ، اپنے ثمر، اپنی صورت پر راضی۔ خزاں
آتی ہے تو خالق کی نگہبان نگاہوں میں سر جھکائے ہر سردوگرم برداشت کرتے،
حکم کے، حرفِ کُن کے منتظر رہتے ہیں۔ وقت آتا ہے تو اس کی ثنا کرتے اس کی
یاد دلاتے جاگ اٹھتے ہیں۔ اور کوئی وہ ہیں کہ جن پر عین خزاں کی رُت میں
گلابی بہار اترتی ہے، بدھا کا درخت۔ یعنی ہر کسی کے لیے وقت کا دورانیہ
مختلف ہے، اور یہ بھی کہ وہ چاہے تو خزاں میں بہار لے آئے۔کمال کا خاصا
ظہور ہے، مجھے یہی لگتا ہے کہ انہیں بھی حکم ہوتا ہے کہ اب ظہور کا وقت ہے،
کلام کا وقت ہے۔ نشانی بننے کا، پہچان سمجھانے کا سمے۔<br /></span></div><div class="gmail_default" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; text-align: right;"><span style="font-size: medium;">ایک
مٹی، ایک ہوا، ایک پانی، انسان بھی تو ایسے ہیں ہیں، محوسفر، کوئی کسی کی
مسابقت میں نہیں، سب کا رنگ سب کا ثمر جدا ہے بس، سفر بھی، جدا اور تنہا،
خالق کے حضور سب تن تنہا ہیں، میانِ نگاہ و دریچہ، اس واسطے میں کسی
تماشائی کی گنجائش نہیں۔ جتنے راہی ہیں اتنی ہی راہیں ہیں، کوئی کسی کے
خلاف نہیں۔ ہر سفر کی حالت اور نوعیت الگ ہے، سمت ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر
کوئی تنہا ہے اور یہی سبب ہے کہ ہر لمحے ہر عالم میں نرمی اور محبت بانٹنے
کی ضرورت ہے۔</span></div>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-68288680272878868922021-03-15T10:44:00.001+05:002021-03-15T11:03:41.787+05:00ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔۔۔<p style="text-align: right;"> ادب راہ کا پہلا چراغ ہے۔ </p><p style="text-align: right;">اسی لیے کسی کے جھوٹے خدا کو بھی برا کہنے سے منع کیا گیا کہ سجا رکھے ہیں لوگوں نے دلوں میں۔ خدا جھوٹا ہے، عقیدت تو سچی ہے۔ آبگینوں کی حفاظت کا فرمان ہے۔ پھر جہاں خدا، ادب اور عقیدت سچی بھی ہو۔۔۔۔خدارا اسے ہنسی ٹھٹھول کا حصہ مت بنائیے۔۔۔<br />کسی یتیم کے سامنے اپنی اولاد کو پیار کرنے سے، ہمسایہ غریب ہو تو پھل کھا کر چھلکے باہر پھینکنے سے، دُکھی کے سامنے اپنی خوشی کے مظاہرے سے اسی لیے منع کیا گیا ہے۔۔۔ کسی میں محرومی کا احساس جگانا، محرومی کا احساس جو رحمتوں سے مایوس کرنے لگے۔۔۔۔ <br />خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم۔۔۔ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔۔۔<br /><br /><br /></p>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-45778960091970529872021-03-15T10:31:00.007+05:002024-01-24T14:56:57.941+05:00زمانوں کے پار سے آتی آوازوں کو سلام۔۔۔۔<p style="text-align: right;">زمانوں کے پار سے آتی آوازوں کو سلام۔۔۔</p><div dir="auto"><div class="ecm0bbzt hv4rvrfc ihqw7lf3 dati1w0a" data-ad-comet-preview="message" data-ad-preview="message" id="jsc_c_fl"><div class="j83agx80 cbu4d94t ew0dbk1b irj2b8pg"><div class="qzhwtbm6 knvmm38d"><span class="d2edcug0 hpfvmrgz qv66sw1b c1et5uql rrkovp55 a8c37x1j keod5gw0 nxhoafnm aigsh9s9 d3f4x2em fe6kdd0r mau55g9w c8b282yb iv3no6db jq4qci2q a3bd9o3v knj5qynh oo9gr5id hzawbc8m" dir="auto"><div class="kvgmc6g5 cxmmr5t8 oygrvhab hcukyx3x c1et5uql ii04i59q"><div dir="auto" style="text-align: start;">گزر جانے کے بعد بھی صفت کی حفاظت میں قائم رہنے والوں کو سلام۔۔۔</div><div dir="auto" style="text-align: start;">فاصلے میں تاریخ میں دور ہستیوں کے بھیجے خیال کو سلام۔۔۔۔<br />جب نشانِ راہ گم ہو، تو رہنما ہونے والوں کو سلام۔۔۔<br /></div><div dir="auto" style="text-align: start;">جا کر بھی نہ جانے والوں کو سلام۔۔۔۔</div><div dir="auto" style="text-align: start;">وہ جو خود کو ان الانسان لفی خسر کی تفسیر کہتے رہے اور حقیقت میں وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر کی تعبیر بنے رہے۔ وہ کہ جب جب خود سے اعتبار اٹھا تو تھپکی بنے، ڈھارس بنے، تسلی بنے، حوصلہ بنے اور سب سے بڑھ کر آئینہ بنے کہ دیکھو اور جان لو کہ ’’یہ ہو تم اور یہ ہے تمہارا طریقِ حیات۔۔۔‘‘<br />عکس۔ آپا (الطاف فاطمہ) کا ایک خط<br /><br /><br /></div><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhawVKY_Wam8XMZvv_p0LU_BUK29XDibPE96n2cRWaCIb1XoSTHscY1toZe89_3aEyNNqwFapaygSjCyZooHjYVP5SuvmqzHwCt90qozPFi4y_o7dOI72bLikKMQ6nxClUCUcIK5NlDV0d_/s520/2016-11-03+22.19.07.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="359" data-original-width="520" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhawVKY_Wam8XMZvv_p0LU_BUK29XDibPE96n2cRWaCIb1XoSTHscY1toZe89_3aEyNNqwFapaygSjCyZooHjYVP5SuvmqzHwCt90qozPFi4y_o7dOI72bLikKMQ6nxClUCUcIK5NlDV0d_/s320/2016-11-03+22.19.07.jpg" width="320" /></a></div><br /><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgyWv8tEeqFJz2QzT7ftpgIDPb34xpyGADKb8XuoPfCsxdVqrtbLts6d19bXvLhpsE1k4wLwrqq3mbdpKCG9u7k4aDX8bccXZeDDxNA4VlvfMiTs8QKFZTCVI88VU3LRJ0vF08haGjK-vvg/s527/2016-11-03+22.19.34.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="489" data-original-width="527" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgyWv8tEeqFJz2QzT7ftpgIDPb34xpyGADKb8XuoPfCsxdVqrtbLts6d19bXvLhpsE1k4wLwrqq3mbdpKCG9u7k4aDX8bccXZeDDxNA4VlvfMiTs8QKFZTCVI88VU3LRJ0vF08haGjK-vvg/s320/2016-11-03+22.19.34.jpg" width="320" /></a></div><br /></div></span></div></div></div></div>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-75569892034035138462020-11-04T11:42:00.002+05:002020-11-04T11:42:26.283+05:00گھر<div style="text-align: right;">دنیا کے سب ہی گھر ، عالیشان ہوں یا یونہی سے، کرائے کے ہی تو ہوتے ہیں۔ ایک روز انہیں چھوڑ جانا ہوتا ہے، سوچیں تو انسان کا جسم بھی کرائے کا ہی گھر ہے۔ اقبال کہہ گئے، وجودِ حضرت انساں نہ روح ہے نہ بدن۔ وہ جو وجود ہے۔۔۔۔ انسان سب سے زیادہ اپنے ساتھ ہی رہتا ہے، اپنی سوچ اپنے خیال میں ہی بستا ہے، اور بھلے کوئی محل میں بستا ہو، کسی کسی کی سوچ اور خیال کا یہ گھر کس قدر تنگ اور اندھیرا ہوتا ہے۔ ان حسد بغض بھرے الجھے ہوئے شکایتوں شکووں بھرے تنگ و تاریک گھروں نے ہی کبھی ابدی گھروں میں بدل جانا ہے، اور توجہ ابدی گھروں کی تزئین و روشنی پر رہے تو یہ کرائے کے گھر بھی سج جاتے ہیں ۔ سمجھ یہی آتی ہے کہ آخرۃ میں حسنہ انہیں ہی ملے گی جنہیں دنیا میں۔ جو یہاں اندھے ہیں وہاں بھی اندھے ہی اٹھائے جائیں گے۔ اُس رب رحمت للعالمین سے دونوں جہان میں تنگی وتاریکی سے امان کی دعا ہے، نور وکشادگی کی دعا ہے، اپنے لیے سب کے لیے (آمین)</div>Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-70398483438494446452020-08-03T15:23:00.000+05:002020-08-03T15:23:17.650+05:00کچھ اردو کے ہندی رسم الخط میں لکھنے کے بارے میں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
ایسا تجربہ ہمعصر تاریخ میں ہوچکا ہے تو کیوں نہ اس پر نظر کرلی جائے، ترکی
میں ’’ایک ملک ایک قوم ایک زبان‘‘ کی بنیاد پر اتاترک نے ترکی زبان کا رسم
الخط بدلا ، یاد رہے کہ عثمانی ترکی دربار اور شرفا کی زبان تھی جس پر
فارسی اور عربی کا اثر تھا، زبان کے رسم الخط کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ترکی
زبان کو ان اثرات سے پاک کیا گیا، اور باقاعدہ ادارہ تشکیل دیا گیا تھا جس
کے ذریعے طے کیا گیا کہ کون سے الفاظ کو شامل رکھا جائے اور کن کو بالکل
نکال دیا جائے۔ مزید یہ کہ رسم الخط کی تبدیلی اصلاحات <span class="text_exposed_show">کے
ایک پورے سلسلے کا حصہ تھی جس میں قدامت پرستی سے جدت کی طرف رخ کیا گیا۔
یعنی پوری تہذیب کا گویا رخ طے کیا گیا۔ اس تبدیلی کو نئی نسل نے تو بڑی
جلدی قبول کیا لیکن احمت حمدی طانپنار اور عدالت آعولو اور ان جیسے بہت سے
ادیبوں نے صحاف لار میں ردی میں بکتی ان کتابوں کا نوحہ تاعمر لکھا جنہیں
ان کے عثمانی ترکی رسم الخط کے باعث نئی نسل پڑھنے کے قابل نہ رہی تھی۔</span><br /><span class="text_exposed_show"> (لسانیات کا کوئی بھی ماہر بتا سکتا ہے کہ زبان محض زبان نہیں ہوتی بلکہ تہذیب کا بیان ہوتی ہے۔ )</span><br /><span class="text_exposed_show">
اب سوال یہ ہے کہ اردو کا رسم الخط بدلنا اگر مقصود ہے تو کیا آپ اردو کو
عربی اور فارسی کے اثر سے پاک کرسکتے ہیں؟ اور اگر ایسا کرسکتے ہیں تو نئے
الفاظ آپ کن زبانوں سے لیں گے؟ مقامی زبانوں سے، پنجابی سندھی ، وہ ہمارے
ہاں کس رسم الخط میں لکھی جا رہی ہیں۔ اور بالفرض آپ ایسا کرلیں تو جو
’’نئی‘‘ زبان بنے گی کیا وہ اردو ہی ہوگی؟ رسم الخط بدلنے سے آپ الفاظ کی
بنیاد، مثلاً حُسن اور حسین ، صرف اور مصرف کی نسبت کو کیسے سمجھا پائیں
گے۔ رسم الخط بدلنے سے یہ مقامی زبانوں سے مزید دور ہوگی یا قریب۔ اور جس
زبان سے قریب کرنا مقصود ہے اس کے قریب ہوکر مزید کھانہ کھراب ہی ہوگا اردو
کا، صحیح کچھ نہیں ہوگا۔ مجھ احمق کو بھی اتنا اندازہ ہے کہ محض رسم الخط
بدلنے سے کیا ہوسکتا ہے، جن لفظوں کو آپ لپیٹ لپیٹ کر لکھتے ہیں، سوچ سوچ
کر ، یا جملوں کی ساخت میں کتنی اور کیسی تبدیلی آسکتی ہے۔ اور پھر کہا
جائے کہ فرق نہیں پڑے گا۔۔۔</span><br /><span class="text_exposed_show"> اور پھر اگر رسم الخط بدلنا ہی ہے اور اس
سے شناخت کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا بقول آپ کے، تو کیوں نہ چینی رسم
الخط اختیار کیا جائے، کچھ بھلا چینی بھائیوں کا ہو کچھ ہمارا۔ صرف دوسرے
ایک ہی رسم الخط پر بحث کیوں ہے۔</span><br /><span class="text_exposed_show"> یہاں بات کا آغاز ایک فیصلے سے کیا
گیا ہے، ڈری ہوئی زبان۔ بات کا اختتام یہ کہ یہ ایک بے فائدہ بحث ہے۔ اگر
کسی کو اس زبان پر مہربانی کرنی ہی ہے تو لسانیات پر کوئی کام کرلے، بے
شمار لفظ ہیں جن کے متبادل اردو میں مجھ جیسے لوگوں کو نہیں ملتے victimاور
prey کے لیے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے، collector کے لیے کوئی جامع لفظ
نہیں ملتا survivor کا اردو متبادل ، وہ جو معانی کو پوری طرح بیان کرسکے
نہیں ملتا۔ یہ نہیں کہ زبان کا دامن وسیع نہیں، زبان تو اتنی وسعت رکھتی ہے
کہ سب نئی نہروں ندیوں کو خود میں شامل کرسکتی ہے ، بات یہ ہے کہ ہمیں بے
فائدہ بحثوں کے لیے تو وقت ملتا ہے ، کام کرنے کا نہیں۔</span><br /><span class="text_exposed_show"> اور پھر بھی تبدیلی پر اصرار ہے تو لائیے کوئی اتاترک جو صرف رسم الخط ہی نہ بدلے، قوم کی تقدیر بھی بدلے، تو بسروچشم</span></div>
</div>
Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-27976476501390898792020-06-22T14:42:00.006+05:002020-06-22T14:42:49.978+05:00باتیں ہماری یاد رہیں گی، باتیں ہماری سنیے گا...<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
باتیں ہماری یاد رہیں گی، باتیں ہماری سنیے گا...<br />باتیں... لطیفے، حکایتیں، چٹکلے، کہانیاں، یادیں، جدوجہد، بے شمار اشعار، اپنے ایجاد کردہ ڈھیروں محاورے، برمحل فقرے، اور سب سے بڑھ کر ہمارے ہاں سے معدوم ہوتی وہ دانش… کیا کیا یاد کریں... کیا کیا یاد رہے گا…<br />بقول خود انہی کے، ڈاکٹر مبشر حسن نے کبھی پوچھا کہ آپ کس یونیورسٹی سے پڑھے ہیں تو جواب میں بولے، ’’شاہ عالمی یونیورسٹی سے اور پڑھا کیا، میں ’’گھٹ پڑھ‘‘ ہوں۔‘‘ اب یہ ’’گھٹ پڑھ‘‘ صرف ایک مثال ہے اْن کی ایجاد کردہ بے شمار اصطلاحوں کی۔۔۔ خود اپنے لیے اس کا استعمال سوائے ان کی انکساری کے کچھ نہیں، وہ عطار جو کہتے ہوں کہ’’پرفیومر کی لیب اس کی ناک ہوتی ہے، میں کوئی بھی خوشبو سونگھوں تو میرا دماغ فوراً بتانے لگتا ہے کہ کس کس کیمیکل سے یہ خوشبو بن سکے گی۔‘‘<br />ڈیڈا۔۔۔۔ یعقوب گوئندی، فرخ سہیل گوئندی صاحب کے والد۔۔۔شروع شروع میں کبھی ان کا فون دفتر آتا اور ہماری مینیجر مصباح کی عدم موجودگی میں ریسیو کرتی، انہیں مصباح اور میری آواز ایک جیسی لگتی تھی، بغیر تعارف لیے بات شروع کرلیتے، مصباح بیٹی، بیٹی، ذرا یہ بات… بتاتی، میں ہما ہوں تو ہنس پڑتے آپ دونوں کی آواز ایک جیسی ہے، شکلیں بھی ملتی ہوں گی؟ مصباح کے آنے پر بتاتی، ڈ…سر کے فادر کا… فرخ صاحب کے والد کا فون تھا۔ ’’ڈیڈا‘‘ کہتے کہتے رک جاتی، بھئی کوئی دفتر کا طور طریقہ ہوتا ہے، کوئی ادب آداب ، اتنی بے تکلفی کاہے کی کہ آپ بھی ’’ڈیڈا‘‘ پکارنے لگیں۔ لیکن جہاں جناب باس اور ان کی بیگم نے کبھی ’’باس‘‘ جیسے تیور ہی نہ دکھائے ہوں، اور سچ یہ ہے کہ اپنے ہاں (جسے وہ ’’اپنے ہاں‘‘ نہیں ’’اپنے ساتھ‘‘ کہتے اور اپنی فیملی سمجھتے ہیں) کام کرنے والوں کے نازنخرے ہی اٹھائے ہوں تو یہ تو پھر اْن کے بھی اباجی ہیں۔ اب ان سے مخاطب ہوتے یہ تکلف اور طریقہ سلیقہ کب تک چلتا۔ بظاہر تو وہ رہے فرخ صاحب کے والد صاحب ہی، لیکن دل میں تو ’’ڈیڈا‘‘ ہی ہوگئے۔ اور پھر وہ ہم دونوں کی آوازوں میں فرق بھی پہچاننے لگے، ’’بھئی آپ کی اور اس کی ’ہیلو‘ میں فرق ہے، اسی سے پتا چل جاتا ہے۔‘‘<br />اپنی بیٹیوں کو تو ہر کوئی بیٹی سمجھتا اور محبت سے نوازتا ہے، اْن کے لیے ہم سب ہی بیٹیاں تھیں، کیا اپنی، کیا پرائی۔ سب ایک سی، سب برابر محبت کی حق دار۔ سب دعائوں کی مستحق۔<br /> اور پھر اْن کے ’’اینکرز‘‘ ، کوئی پلمبر ہے کوئی الیکٹریشن، کوئی ڈرائیور، کوئی کچھ... ’’کوئی ان کو برابر نہیں بٹھاتا، یہاں آتے ہیں، بیٹھتے ہیں، خوش ہو جاتے ہیں، ہیں جی...‘‘وہ بھی خوش اور یہ بھی، مل کر مجلس جما کر خوش، بانٹ کر خوش، ہنس اور ہنسا کر خوش۔ کوئی نقصان ہوا تو کہنے لگے، ’’تھا ، تبھی تو گیا ناں، نہ ہوتا تو کیسے ہوتا نقصان۔‘‘ تو ہونے کا شکر پہلے کرلیں، نقصان کا افسوس بعد میں سہی۔ اور صرف کہے کی بات نہیں، ایسے افسوس انہوں نے پالے بھی نہیں، نہ کبھی گنتی کی، کمایا ضرور تاعمر، تاعمر بانٹا بھی۔<br />اور ابھی تو آپ کو اپنی یادداشتیں مکمل کرنی تھیں... یادیں بے ترتیب…ابھی تین چار روز پہلے ہی تو آپ سے کہا تھا کہ ریکارڈ کردیں، بے ترتیب سہی، ہم کاغذ کی پرچیوں پر لکھی یادوں کو بھی ترتیب دے کر کتاب کی صورت دے دیں گے،اور آپ نے کہا کہ اچھا بیٹی، آج یقین آیا کہ آپ لوگ کتاب کے بارے میں سنجیدہ ہیں، اب میں مکمل کرلوں گا، اب سمجھا کہ آپ سب میری ٹیچرز ہیں، ہوتی ہے ناں کوئی جغرافیے کی ٹیچر، کوئی ریاضی کی، کوئی سائنس کی، ویسے ہی۔ <br />لیکن اب بے ترتیب یادیں جو نامکمل ہیں تو کیسے جانیں گے لوگ کہ تعلیم نہیں علم ضروری ہے اور اس کے لیے نہ تو حالات رکاوٹ ہوتے ہیں اور نہ عمر، سیلف میڈ ہونا کیا ہوتا ہے، حلال رزق اور محنت کس چڑیا کا نام ہے، اور یہ کہ ادب کرنا اور کروانا احترام دینا اور لینا کیا ہوتا ہے، بے غرضی کیا ہوتی ہے، کون ہوتے ہیں جو دنیا میں بیٹھے ہوتے ہیں بظاہر میلہ جما کر، مشغول، لیکن مکمل تیار بھی، اِدھر بلاوہ آئے تو ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوں، سوٹ کیس تیار رہتا ہے…<br />جیت گئے آپ اخلاص کی بازی۔۔۔<br />ابھی دو روز پہلے تو ’’خوشبو سے گفتگو‘‘ کے نام سے انٹرویو کیا تھا آپ کے بیٹے نے آپ کا، اور اب خوشبو ہوا ہوئی۔۔۔ کیا سب عطار ایسے ہی ہوتے ہیں؟<br />ہنستے مسکراتے کھلکھلاتے، ایسے ہی رہے اور ایسے ہی ہنستے کھلکھلاتے اٹھ کر چل دئیے۔ اللہ آپ کو اْس جہان میں بھی ہنستا مسکراتا رکھے، آمین۔<br /><br /></div>
</div>
Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1641950631157022862.post-32720528654039590802019-12-19T12:42:00.002+05:002019-12-19T12:42:42.457+05:00تنہائی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="gmail_default" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; font-size: small; text-align: right;">
<br /></div>
<div class="gmail_default" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; font-size: small; text-align: right;">
اللہ تنہائی کے شر سے بچائے اور تنہائی کے عذاب سے بھی۔</div>
<div class="gmail_default" style="font-family: comic sans ms, sans-serif; font-size: small; text-align: right;">
اور اللہ تنہائی کے فضل سے نوازے</div>
</div>
Huma Anwarhttp://www.blogger.com/profile/15318183615241947764noreply@blogger.com0