یونہی سوچ رہا ہوں کہ یہ یک سطری جملے آپ کے اپنےہوتے ہیں یا آپ کہیں سے حاصل کرتی ہیں - موخر الذکر صورت میں آپ حوالہ بھی دے دیا کریں تو مناسب ہو گا- رہی بات وقت کی تو وہ آئین سٹائن کے نظریہ اضافیت کی رو سے مکان ہی کی ایک جہت ہے - اقبال کو اس سے اختلاف تھا جس کا ذکر انہوں نے اپنے انگریزی میں دے ہوۓ خطابات میں کیا تھا- انہیں کتابی صورت میں پیش کیا گیا تھا، کتاب کا نام یہ ہے
The re-construction of religious thought in Islam
ان لیکچروں میں اقبال نے جدید سائنس اور فلسفہ کی روشنی میں اس موضوع پہ تفصیل سے بحث کی ہے کہ مادی اور غیر مادی دنیاؤں میں فرق ایک حد تک نظر کا دھوکہ ہے - ان کے فرزند جاوید اقبال نے اپنے والد کے خطابات پہ ایک کتاب بھی لکھی ہے جو شاید آپ پڑھنا پسند کریں- نام ہے: خطبات اقبال
Akhtar sahab..waqt ki achi aur buri baat yehi hai ke yeh guzar jata hai.. ya shayad ham gardih mein..(bass aik gardish ka hai tasalsul,jissay lagataar dekhta hoon)
Pehle to ye faisla kya jaye k waqt kaha kise jaye? :D
Din raat k guzarne ya hamare bache k taur pe dunya main aane aur boodha ho k dunya se jaane ko waqt kee pemaish ka aala bnaya jaye to waqt waqai nahin ruk raha.
آپ "زمان متسلسل" کی بات کر رہے ہیں جس میں ہماری حیوانی زنگی مقید ہوتی ہے- اس کے علاوہ "زمان خالص" کی حقیقت بھی ہے جس کا ادرک ہمیں ایک حد تک فلسفیانہ نظریات سے ہو سکتا ہے لیکن اس تک براہ راست رسائی شاید صرف قلبی واردات سے ہی ہو سکتی ہے- تفصیل آپ کو جاوید اقبآل کی تصنیف "خطبات اقبال" میں ملے گی
"خطبات" پڑھنے سے پہلے شاید آپ یہ مضمون پڑھنا پسند کریں
waqt aik bilkul relative term hai, ham issay zameen ki gardish se naaptay hain.. jaisa ke "kuch log zindagi ko mah o saal se naaptay hain" magar inn hadood se bahir waqt kiya hai??
kuch aisi hi baatien sakib sahab , Harun yahya ne bhi kahi thien,agar mai bhool nahin rahi tou..
ہارون یحییٰ ایک بلند پاے کے دانشور ہیں - انہوں نے جدید سائینسی انکشافات اور قرآن مجید کی آیات کے درمیان ہم آہنگی پر بہت کچھ لکھا ہے- اس کے علاوہ انہوں نے قرآن کی متشابھات آیات کی تشریح اپنی سمجھ کے مطابق پیش کی ہے - زمان و مکان کی مادی حقیقت بہت حد تک آئین سٹائن نے واضح کر دی تھی جسے ہارون یحییٰ شاید حرف آخر سمجھتے ہیں اور اقبال کا خیال شاید یہ تھا کہ نظریہ اضافییت کو مزید مکمّل بنایا جا سکتا ہے - رہی بات "زمان خالص" کی تو میں سمجھتا ہوں کے اس کا صحیح ادراک ما بعد الطبیعات تجربہ کے بغیر ممکن نہیں، اس لئے اگر میں اس موضوع کے متعلق کچھ کہوں گا تو یہ "چھوٹا منہ بڑی بات" ہو گی- آپ خود ہی "خطبات" پڑھنے کے بعد فیصلہ کیجئے
اقبال اور ہارون یحییٰ میں ایک اہم فرق "تقدیر" کی نوعیت کا ہے- حالت جنون میں اقبال نے ایسی بے مثال شاعری کی تھی کے ملا حضرات نے ان پہ کفر کا فتویٰ داغ دیا تھا
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں ؟ جہاں میں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں؟ وہ اپنی لا مکانی میں رہیں مست مجھے اتنا بتا دیں میں کہاں ہوں
waqt tu shayad ruka he rehata hai hum he gurdish mei rehte heiN
ReplyDeleteیونہی سوچ رہا ہوں کہ یہ یک سطری جملے آپ کے اپنےہوتے ہیں یا آپ کہیں سے حاصل کرتی ہیں - موخر الذکر صورت میں آپ حوالہ بھی دے دیا کریں تو مناسب ہو گا-
ReplyDeleteرہی بات وقت کی تو وہ آئین سٹائن کے نظریہ اضافیت کی رو سے مکان ہی کی ایک جہت ہے - اقبال کو اس سے اختلاف تھا جس کا ذکر انہوں نے اپنے انگریزی میں دے ہوۓ خطابات میں کیا تھا- انہیں کتابی صورت میں پیش کیا گیا تھا، کتاب کا نام یہ ہے
The re-construction of religious thought in Islam
ان لیکچروں میں اقبال نے جدید سائنس اور فلسفہ کی روشنی میں اس موضوع پہ تفصیل سے بحث کی ہے کہ مادی اور غیر مادی دنیاؤں میں فرق ایک حد تک نظر کا دھوکہ ہے - ان کے فرزند جاوید اقبال نے اپنے والد کے خطابات پہ ایک کتاب بھی لکھی ہے جو شاید آپ پڑھنا پسند کریں- نام ہے: خطبات اقبال
Akhtar sahab..waqt ki achi aur buri baat yehi hai ke yeh guzar jata hai.. ya shayad ham gardih mein..(bass aik gardish ka hai tasalsul,jissay lagataar dekhta hoon)
ReplyDeleteSakib sahab, aapke tashreef lanay ka shukrya.. yeh kitab jo aap ne recommend ki ,mai zaroor parhna chahoon gi..
ReplyDeleteaur yeh yak satri jumlay mere hi hote hain, dosri soorat mein mai yaqeenan hawala deti..
aik aur jumla yad aaya,magar yeh Riffat Naheed Sajjad ka hai..
ReplyDeleteوقت جلدی گزر جاتا ہے یا ہم جلدی میں ہوتے ہیں، وقت سے سرسری گزر جاتے ہیں
Pehle to ye faisla kya jaye k waqt kaha kise jaye? :D
ReplyDeleteDin raat k guzarne ya hamare bache k taur pe dunya main aane aur boodha ho k dunya se jaane ko waqt kee pemaish ka aala bnaya jaye to waqt waqai nahin ruk raha.
@Sir Akhtar
Ap kis ko waqt keh rahe hain? :)
p.s. i really liked your blog, started following.
@rlZ
ReplyDeleteآپ "زمان متسلسل" کی بات کر رہے ہیں جس میں ہماری حیوانی زنگی مقید ہوتی ہے- اس کے علاوہ "زمان خالص" کی حقیقت بھی ہے جس کا ادرک ہمیں ایک حد تک فلسفیانہ نظریات سے ہو سکتا ہے لیکن اس تک براہ راست رسائی شاید صرف قلبی واردات سے ہی ہو سکتی ہے- تفصیل آپ کو جاوید اقبآل کی تصنیف "خطبات اقبال" میں ملے گی
"خطبات" پڑھنے سے پہلے شاید آپ یہ مضمون پڑھنا پسند کریں
http://sakibahmad.blogspot.com/2010/06/islam-reality-beyond-time-and-space.html
waqt aik bilkul relative term hai, ham issay zameen ki gardish se naaptay hain.. jaisa ke "kuch log zindagi ko mah o saal se naaptay hain"
ReplyDeletemagar inn hadood se bahir waqt kiya hai??
kuch aisi hi baatien sakib sahab , Harun yahya ne bhi kahi thien,agar mai bhool nahin rahi tou..
@rIZ
ReplyDeleteshukrya aapki tashreef awari ka :)
ہما صاحبہ
ReplyDeleteہارون یحییٰ ایک بلند پاے کے دانشور ہیں - انہوں نے جدید سائینسی انکشافات اور قرآن مجید کی آیات کے درمیان ہم آہنگی پر بہت کچھ لکھا ہے- اس کے علاوہ انہوں نے قرآن کی متشابھات آیات کی تشریح اپنی سمجھ کے مطابق پیش کی ہے - زمان و مکان کی مادی حقیقت بہت حد تک آئین سٹائن نے واضح کر دی تھی جسے ہارون یحییٰ شاید حرف آخر سمجھتے ہیں اور اقبال کا خیال شاید یہ تھا کہ نظریہ اضافییت کو مزید مکمّل بنایا جا سکتا ہے - رہی بات "زمان خالص" کی تو میں سمجھتا ہوں کے اس کا صحیح ادراک ما بعد الطبیعات تجربہ کے بغیر ممکن نہیں، اس لئے اگر میں اس موضوع کے متعلق کچھ کہوں گا تو یہ "چھوٹا منہ بڑی بات" ہو گی- آپ خود ہی "خطبات" پڑھنے کے بعد فیصلہ کیجئے
اقبال اور ہارون یحییٰ میں ایک اہم فرق "تقدیر" کی نوعیت کا ہے- حالت جنون میں اقبال نے ایسی بے مثال شاعری کی تھی کے ملا حضرات نے ان پہ کفر کا فتویٰ داغ دیا تھا
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں ؟
جہاں میں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں؟
وہ اپنی لا مکانی میں رہیں مست
مجھے اتنا بتا دیں میں کہاں ہوں
mera tajassus barh gaya hai, mai zaroor parhna chahon gi yeh kitaab..
ReplyDelete