Wednesday, November 4, 2020

گھر

دنیا کے سب ہی گھر ، عالیشان ہوں یا یونہی سے، کرائے کے ہی تو ہوتے ہیں۔ ایک روز انہیں چھوڑ جانا ہوتا ہے، سوچیں تو انسان کا جسم بھی کرائے کا ہی گھر ہے۔ اقبال کہہ گئے، وجودِ حضرت انساں نہ روح ہے نہ بدن۔ وہ جو وجود ہے۔۔۔۔  انسان سب سے زیادہ اپنے ساتھ ہی رہتا ہے، اپنی سوچ اپنے خیال میں ہی بستا ہے، اور بھلے کوئی محل میں بستا ہو، کسی کسی کی سوچ اور خیال کا یہ گھر کس قدر تنگ اور اندھیرا ہوتا ہے۔ ان حسد بغض بھرے الجھے ہوئے شکایتوں شکووں بھرے تنگ و تاریک گھروں نے ہی کبھی ابدی گھروں میں بدل جانا ہے، اور توجہ ابدی گھروں کی تزئین و روشنی پر رہے تو یہ کرائے کے گھر بھی سج جاتے ہیں ۔ سمجھ یہی آتی ہے کہ آخرۃ میں حسنہ انہیں ہی ملے گی جنہیں دنیا میں۔ جو یہاں اندھے ہیں وہاں بھی اندھے ہی اٹھائے جائیں گے۔ اُس رب رحمت للعالمین سے دونوں جہان میں تنگی وتاریکی سے امان کی دعا ہے، نور وکشادگی کی دعا ہے، اپنے لیے سب کے لیے (آمین)

Monday, August 3, 2020

کچھ اردو کے ہندی رسم الخط میں لکھنے کے بارے میں

ایسا تجربہ ہمعصر تاریخ میں ہوچکا ہے تو کیوں نہ اس پر نظر کرلی جائے، ترکی میں ’’ایک ملک ایک قوم ایک زبان‘‘ کی بنیاد پر اتاترک نے ترکی زبان کا رسم الخط بدلا ، یاد رہے کہ عثمانی ترکی دربار اور شرفا کی زبان تھی جس پر فارسی اور عربی کا اثر تھا، زبان کے رسم الخط کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ترکی زبان کو ان اثرات سے پاک کیا گیا، اور باقاعدہ ادارہ تشکیل دیا گیا تھا جس کے ذریعے طے کیا گیا کہ کون سے الفاظ کو شامل رکھا جائے اور کن کو بالکل نکال دیا جائے۔ مزید یہ کہ رسم الخط کی تبدیلی اصلاحات کے ایک پورے سلسلے کا حصہ تھی جس میں قدامت پرستی سے جدت کی طرف رخ کیا گیا۔ یعنی پوری تہذیب کا گویا رخ طے کیا گیا۔ اس تبدیلی کو نئی نسل نے تو بڑی جلدی قبول کیا لیکن احمت حمدی طانپنار اور عدالت آعولو اور ان جیسے بہت سے ادیبوں نے صحاف لار میں ردی میں بکتی ان کتابوں کا نوحہ تاعمر لکھا جنہیں ان کے عثمانی ترکی رسم الخط کے باعث نئی نسل پڑھنے کے قابل نہ رہی تھی۔
(لسانیات کا کوئی بھی ماہر بتا سکتا ہے کہ زبان محض زبان نہیں ہوتی بلکہ تہذیب کا بیان ہوتی ہے۔ )
اب سوال یہ ہے کہ اردو کا رسم الخط بدلنا اگر مقصود ہے تو کیا آپ اردو کو عربی اور فارسی کے اثر سے پاک کرسکتے ہیں؟ اور اگر ایسا کرسکتے ہیں تو نئے الفاظ آپ کن زبانوں سے لیں گے؟ مقامی زبانوں سے، پنجابی سندھی ، وہ ہمارے ہاں کس رسم الخط میں لکھی جا رہی ہیں۔ اور بالفرض آپ ایسا کرلیں تو جو ’’نئی‘‘ زبان بنے گی کیا وہ اردو ہی ہوگی؟ رسم الخط بدلنے سے آپ الفاظ کی بنیاد، مثلاً حُسن اور حسین ، صرف اور مصرف کی نسبت کو کیسے سمجھا پائیں گے۔ رسم الخط بدلنے سے یہ مقامی زبانوں سے مزید دور ہوگی یا قریب۔ اور جس زبان سے قریب کرنا مقصود ہے اس کے قریب ہوکر مزید کھانہ کھراب ہی ہوگا اردو کا، صحیح کچھ نہیں ہوگا۔ مجھ احمق کو بھی اتنا اندازہ ہے کہ محض رسم الخط بدلنے سے کیا ہوسکتا ہے، جن لفظوں کو آپ لپیٹ لپیٹ کر لکھتے ہیں، سوچ سوچ کر ، یا جملوں کی ساخت میں کتنی اور کیسی تبدیلی آسکتی ہے۔ اور پھر کہا جائے کہ فرق نہیں پڑے گا۔۔۔
اور پھر اگر رسم الخط بدلنا ہی ہے اور اس سے شناخت کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا بقول آپ کے، تو کیوں نہ چینی رسم الخط اختیار کیا جائے، کچھ بھلا چینی بھائیوں کا ہو کچھ ہمارا۔ صرف دوسرے ایک ہی رسم الخط پر بحث کیوں ہے۔
یہاں بات کا آغاز ایک فیصلے سے کیا گیا ہے، ڈری ہوئی زبان۔ بات کا اختتام یہ کہ یہ ایک بے فائدہ بحث ہے۔ اگر کسی کو اس زبان پر مہربانی کرنی ہی ہے تو لسانیات پر کوئی کام کرلے، بے شمار لفظ ہیں جن کے متبادل اردو میں مجھ جیسے لوگوں کو نہیں ملتے victimاور prey کے لیے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے، collector کے لیے کوئی جامع لفظ نہیں ملتا survivor کا اردو متبادل ، وہ جو معانی کو پوری طرح بیان کرسکے نہیں ملتا۔ یہ نہیں کہ زبان کا دامن وسیع نہیں، زبان تو اتنی وسعت رکھتی ہے کہ سب نئی نہروں ندیوں کو خود میں شامل کرسکتی ہے ، بات یہ ہے کہ ہمیں بے فائدہ بحثوں کے لیے تو وقت ملتا ہے ، کام کرنے کا نہیں۔
اور پھر بھی تبدیلی پر اصرار ہے تو لائیے کوئی اتاترک جو صرف رسم الخط ہی نہ بدلے، قوم کی تقدیر بھی بدلے، تو بسروچشم

Monday, June 22, 2020

باتیں ہماری یاد رہیں گی، باتیں ہماری سنیے گا...

باتیں ہماری یاد رہیں گی، باتیں ہماری سنیے گا...
باتیں... لطیفے، حکایتیں، چٹکلے، کہانیاں، یادیں، جدوجہد، بے شمار اشعار، اپنے ایجاد کردہ ڈھیروں محاورے، برمحل فقرے، اور سب سے بڑھ کر ہمارے ہاں سے معدوم ہوتی وہ دانش… کیا کیا یاد کریں... کیا کیا یاد رہے گا…
بقول خود انہی کے، ڈاکٹر مبشر حسن نے کبھی پوچھا کہ آپ کس یونیورسٹی سے پڑھے ہیں تو جواب میں بولے، ’’شاہ عالمی یونیورسٹی سے اور پڑھا کیا، میں ’’گھٹ پڑھ‘‘ ہوں۔‘‘ اب یہ ’’گھٹ پڑھ‘‘ صرف ایک مثال ہے اْن کی ایجاد کردہ بے شمار اصطلاحوں کی۔۔۔ خود اپنے لیے اس کا استعمال سوائے ان کی انکساری کے کچھ نہیں، وہ عطار جو کہتے ہوں کہ’’پرفیومر کی لیب اس کی ناک ہوتی ہے، میں کوئی بھی خوشبو سونگھوں تو میرا دماغ فوراً بتانے لگتا ہے کہ کس کس کیمیکل سے یہ خوشبو بن سکے گی۔‘‘
ڈیڈا۔۔۔۔ یعقوب گوئندی، فرخ سہیل گوئندی صاحب کے والد۔۔۔شروع شروع میں کبھی ان کا فون دفتر آتا اور ہماری مینیجر مصباح کی عدم موجودگی میں ریسیو کرتی، انہیں مصباح اور میری آواز ایک جیسی لگتی تھی، بغیر تعارف لیے بات شروع کرلیتے، مصباح بیٹی، بیٹی، ذرا یہ بات… بتاتی، میں ہما ہوں تو ہنس پڑتے آپ دونوں کی آواز ایک جیسی ہے، شکلیں بھی ملتی ہوں گی؟ مصباح کے آنے پر بتاتی، ڈ…سر کے فادر کا… فرخ صاحب کے والد کا فون تھا۔ ’’ڈیڈا‘‘ کہتے کہتے رک جاتی، بھئی کوئی دفتر کا طور طریقہ ہوتا ہے، کوئی ادب آداب ، اتنی بے تکلفی کاہے کی کہ آپ بھی ’’ڈیڈا‘‘ پکارنے لگیں۔ لیکن جہاں جناب باس اور ان کی بیگم نے کبھی ’’باس‘‘ جیسے تیور ہی نہ دکھائے ہوں، اور سچ یہ ہے کہ اپنے ہاں (جسے وہ ’’اپنے ہاں‘‘ نہیں ’’اپنے ساتھ‘‘ کہتے اور اپنی فیملی سمجھتے ہیں) کام کرنے والوں کے نازنخرے ہی اٹھائے ہوں تو یہ تو پھر اْن کے بھی اباجی ہیں۔ اب ان سے مخاطب ہوتے یہ تکلف اور طریقہ سلیقہ کب تک چلتا۔ بظاہر تو وہ رہے فرخ صاحب کے والد صاحب ہی، لیکن دل میں تو ’’ڈیڈا‘‘ ہی ہوگئے۔ اور پھر وہ ہم دونوں کی آوازوں میں فرق بھی پہچاننے لگے، ’’بھئی آپ کی اور اس کی ’ہیلو‘ میں فرق ہے، اسی سے پتا چل جاتا ہے۔‘‘
اپنی بیٹیوں کو تو ہر کوئی بیٹی سمجھتا اور محبت سے نوازتا ہے، اْن کے لیے ہم سب ہی بیٹیاں تھیں، کیا اپنی، کیا پرائی۔ سب ایک سی، سب برابر محبت کی حق دار۔ سب دعائوں کی مستحق۔
 اور پھر اْن کے ’’اینکرز‘‘ ، کوئی پلمبر ہے کوئی الیکٹریشن، کوئی ڈرائیور، کوئی کچھ... ’’کوئی ان کو برابر نہیں بٹھاتا، یہاں آتے ہیں، بیٹھتے ہیں، خوش ہو جاتے ہیں، ہیں جی...‘‘وہ بھی خوش اور یہ بھی، مل کر مجلس جما کر خوش، بانٹ کر خوش، ہنس اور ہنسا کر خوش۔ کوئی نقصان ہوا تو کہنے لگے، ’’تھا ، تبھی تو گیا ناں، نہ ہوتا تو کیسے ہوتا نقصان۔‘‘ تو ہونے کا شکر پہلے کرلیں، نقصان کا افسوس بعد میں سہی۔ اور صرف کہے کی بات نہیں، ایسے افسوس انہوں نے پالے بھی نہیں، نہ کبھی گنتی کی، کمایا ضرور تاعمر، تاعمر بانٹا بھی۔
اور ابھی تو آپ کو اپنی یادداشتیں مکمل کرنی تھیں... یادیں بے ترتیب…ابھی تین چار روز پہلے ہی تو آپ سے کہا تھا کہ ریکارڈ کردیں، بے ترتیب سہی، ہم کاغذ کی پرچیوں پر لکھی یادوں کو بھی ترتیب دے کر کتاب کی صورت دے دیں گے،اور آپ نے کہا کہ اچھا بیٹی، آج یقین آیا کہ آپ لوگ کتاب کے بارے میں سنجیدہ ہیں، اب میں مکمل کرلوں گا، اب سمجھا کہ آپ سب میری ٹیچرز ہیں، ہوتی ہے ناں کوئی جغرافیے کی ٹیچر، کوئی ریاضی کی، کوئی سائنس کی، ویسے ہی۔
لیکن اب بے ترتیب یادیں جو نامکمل ہیں تو کیسے جانیں گے لوگ کہ تعلیم نہیں علم ضروری ہے اور اس کے لیے نہ تو حالات رکاوٹ ہوتے ہیں اور نہ عمر، سیلف میڈ ہونا کیا ہوتا ہے، حلال رزق اور محنت کس چڑیا کا نام ہے، اور یہ کہ ادب کرنا اور کروانا احترام دینا اور لینا کیا ہوتا ہے، بے غرضی کیا ہوتی ہے، کون ہوتے ہیں جو دنیا میں بیٹھے ہوتے ہیں بظاہر میلہ جما کر، مشغول، لیکن مکمل تیار بھی، اِدھر بلاوہ آئے تو ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوں، سوٹ کیس تیار رہتا ہے…
جیت گئے آپ اخلاص کی بازی۔۔۔
ابھی دو روز پہلے تو ’’خوشبو سے گفتگو‘‘ کے نام سے انٹرویو کیا تھا آپ کے بیٹے نے آپ کا، اور اب خوشبو ہوا ہوئی۔۔۔ کیا سب عطار ایسے ہی ہوتے ہیں؟
ہنستے مسکراتے کھلکھلاتے، ایسے ہی رہے اور ایسے ہی ہنستے کھلکھلاتے اٹھ کر چل دئیے۔ اللہ آپ کو اْس جہان میں بھی ہنستا مسکراتا رکھے، آمین۔