Wednesday, March 13, 2024

 لاکھ بار شکر اس سب کے لیے جو اللہ نے عطا کیا اور کروڑہا بار شکر اس سب کے لیے جو اللہ نے عطا نہیں کیا۔

ایک یاد دہانی

 اس دنیا کی کسی بھی بات یا چیز میں بہت دل لگانے اور اس دنیا کی کسی بھی بات یا چیز کو دل پر لگانے کی ایسی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔

Sunday, November 12, 2023

رزق

 

پچھلے دو ہفتے کے دوران میں نے چند ایک کو کسی ایک ہی شخص سے کچھ ایسا کہتے سنا ہے کہ اللہ تو خوش باش صورتوں والوں کو ہی کھلا رزق دیتا ہے۔ غم زدہ دوسرے لفظوں میں Grieving لوگوں کا رزق ان کی روتی دھوتی صورت کی وجہ سے کم ہو جاتا ہے یا روک لیا جاتا ہے۔

ان لفظوں کی درپردہ سختی ایک طرف۔۔ مگر سوال اٹھا ذہن میں کہ کیا واقعی ایسا ہے؟؟ اور آج سوچتے سوچتے یہ آیاتِ قرآنی ذہن میں آئیں۔۔ (یہ بھی رزق کی ایک صورت ہے، نگاہ کے لیے حسن نظارہ، کان کے لیے حسن سماعت، دماغ کے لیے حسن خیال ، پیروں کے لیے خیر کی راہ، ہاتھ کے لیے خیر کا کام، زبان کے لیے دوسروں سے دیکھ بھال کر بات کرنا اور حسن کلام، سب پاک رزق ہے) تو یہ بھی سوچا کہ اس ’’رزق‘‘ میں دوسروں کو شریک کیا جائے۔
الله يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر
الله يبسط الرزق لمن يشاء من عباده ويقدر له
اللہ شکلیں دیکھ کر رزق نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور جس کے لیے چاہے تنگ کر دے۔۔۔۔ جب چاہے تنگی کو فراخی میں بدل دے۔۔۔
رزق کی فراخی ، بخشے جانے کی، اللہ کے پسندیدہ ہونے کی نشانی بھی نہیں ہے۔۔۔
اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ۔۔۔
فتنہ یعنی امتحان۔۔ یہاں ہر چیز امتحان ہی ہے۔۔ تنگی بھی فراخی بھی۔۔۔
ہاں ضرور، شکر کرنے والوں کو وہ اور نوازتا ہے۔ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ ۔۔۔ مگر کسی کی کیفیت کی خبر خود اس کو ہو سکتی ہے یا اللہ کو۔ کوئی انسان کسی کے اندر کی کیفیت کو یقین سے کیسے جان سکتا ہے؟ رنج زدہ دل ایک ہی وقت میں رنج اور شکر کرسکتا ہے۔ محروم دعا دے سکتا ہے دوسروں کو اور شاکر بھی ہو سکتا ہے، یہ ممکن ہے۔ اور جس بھی حال میں اللہ یاد رہے، وہی فضل ہے وہی رحمت ہے، چاہے وہ کوئی تنگی ہو یا فراخی۔۔۔
اور مبارک ہیں وہ جو دوسروں کے دلوں کو ٹھیس نہ پہنچانے کی خاطر بہت دیکھ بھال کر بولتے ہیں۔۔ مبارک ہیں وہ جو ایسی کسی کوتاہی کا شعور ہونے پر اپنی غلطی سے رجوع کرتے ہیں۔
اور مبارک ہیں وہ جو دوسروں کو ان کی تنگی کے وقت میں ان کی اچھائی کی یاد دلاتے ہیں، ان کی اصل کی طرف واپس لوٹنے کی راہ دکھاتے ہیں، بجائے judge کرنے کے، بجائے انگلی اٹھانے کے، بجائے خود اپنی شکرگزاریوں کا اعلان کرنے کے۔
اللہ تعالیٰ بھی یہی کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کو یاد دلا دیا کرو۔
تو یاد رہے کہ تنگی کا یہی وقت فراخی بھی ہے، یاد دہانی بھی ہے کہ آج کا وقت گزر جائے گا اور کل کو آپ کی جگہ کوئی اور ہو تو آپ اس کے لیے کاندھا بنیں گے، دلاسا بنیں گے، ڈھارس بنیں گے۔ اپنی شکرگزاری اور اس کی ناشکری کا اعلان نہیں بنیں گے۔ رحمتوں کی امید کا اعلان بنیں گے۔
مبارک ہیں وہ جو سنت اللہ اور سنت الرسول کے مطابق ۔۔۔ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى۔۔ کی تفسیر بنتے ہیں، انسانوں کو چیزوں کی طرح استعمال کے بعد ، ہاتھ تھامنے کے بعد چھوڑتے نہیں ہیں۔
اور وہ جن کی آنکھیں نم ہیں اللہ انہیں وہ آنسو دے جو گلے شکوے کے نہ ہوں ۔ رحم کے ہوں نرمی کے ہوں ، خوف کے نہ ہوں شوق کے ہوں، اللہ کی یاد کے ہوں، آمین
ہم سب محتاج ہیں، اللہ کے حضور فقیر ہیں، اللہ ہمیں ہماری محتاجی کا شعور دئیے رکھے، ہم سب کو محتاجوں کی محتاجی سے بچائے، آمین

Saturday, November 11, 2023

مقامِ شکر

اور  یہ تو مقامِ شکر ہے کہ آپ کسی انسان سے کوئی امید رکھیں ، وہ اس امید کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی توڑ دے۔۔
الحمدللہ

Monday, July 31, 2023

شکر و عاجزی کا غرور

 

ایک غرور عاجزی کا اور شکرگزاری کا بھی ہوتا ہے، ادھر کسی نے اپنے کسی کمزور لمحے میں اپنی کسی مشکل کا ذکر کیا نہیں ، اور ہم نے کہا، بھئی ہمیں تو اللہ نے بہت نوازا ہے ہم تو شکر گزار ہیں اس کے۔
شکر گزاری تو پتا نہیں اسے پتھر دلی ضرور کہا جاتا ہے۔

Thursday, March 30, 2023

۔۔۔ہرا بھرا گھر تھا۔۔

 ​​​"صبح دم جو دیکھا تھا، کیا ہرا بھرا گھر تھا

ڈانٹتی ہوئی بیوی، بھاگتے ہوئے بچے

رسیوں کی بانہوں میں، جھولتے ہوئے کپڑے

اک طرف کو گڑیا کا ادھ بنا گھروندا تھا

دور ایک کونے میں سائیکل کا پہیہ تھا"

سائکلیں تھیں بھائیوں کی، (وہ سرخ سائیکل بھی جس کے چلتے پہیے میں میرا پیر آیا تھا اور ابو سے میرے بھائی کو رہ رہ کر ڈانٹ پڑی تھی)

مرغیوں کے ڈربے تھے

کابکیں تھیں پنجرہ تھا

سیزر جو ہماری آمد سے پہلے دنیا سے گزر گیا مگر ابا کا لیجنڈری پالتو جس کے فلموں میں کام کرنے ، زخمی ہیرو کو تانگے پر لے جانے،  تمیز تہذیب کے قصے بعد میں پیدا ہونے والوں تک کو  سنائے جاتے رہے، کہ تہاڈے توں بوہتی عقل تے سیزر نوں سی۔۔۔ پھر جمی، ڈیزی۔۔۔

انگور کی بیلیں تھیں، جامن امرود انار شہتوت کے پیڑ تھے

سبزیوں کی کیاریاں تھیں، پودینہ اور لیموں جو محلے بھر میں بانٹے جاتے تھے

گلاب کی جھاڑیاں اور موتیا، جو ہر صبح جمع کرکے ابا رومال میں رکھتے، واحد سنگھار جو میں نے امی کو کرتے دیکھا ، بالیوں میں موتیا کے پھول۔۔۔ اور جو ابا ہر آنے والے مہمان کو بطور تحفہ دیتے، موتیا کے پھول۔۔۔

صحن جہاں کنک (گندم) چھان پھٹک دھو کر پھیلائی جاتی اور پرندوں اور ہمارے کھیل کا سامان ہوتی۔ 

سہ پہر کو پڑوس کے بچے اسی صحن میں ادھم مچاتے، لڑتے اور لڑائیوں کو اپنے اماں ابا سے چھپاتے ۔

شام کو اسی صحن میں چارپائیاں بچھتیں اور بجلی جانے پر ابا امی کوئی تاریخ سے قصے یا حالات حاضرہ ۔۔۔ یا پھر بڑے بھائی خوب ڈرائونی سی کہانیاں سنایا کرتے۔۔۔

کھلا سا صحن جو الیکشنوں کے دنوں میں کارنر میٹنگوں کے لیے اور محلے کی کسی بھی بیٹی کی شادی کے لیے ابا پیش کر دیا کرتے تھے۔ زکوۃ کمیٹی کے لیے بھی، جہاں اسی صحن میں بیٹھی کتنی خالہ جی ماسی جی اماں جی کے لیے ہمیں ہدایت ملتی تھی کہ سنو مدعا اور لکھو درخواست، بخدمت جناب چئیرمین زکوۃ کمیٹی۔۔۔

بڑی عید پر مسجد کمیٹی  کی مشترکہ قربانی بھی اسی صحن میں ہوتی ، انفرادی یا مشترکہ ان جانوروں کی خدمت بھی ابا کے ذمہ، تکبیر ہمیشہ ابا پڑھتے اور امی باقیوں کو شرم دلاتیں، انور صاحب نے لے جانا اے سارا ثواب تے تسی ساریاں نے پل صراط تے گائے بیل دی پوچھل پھڑدے رہ جانا اے۔

ماسی جس کی صفائی پر میری بہن یا میں کبھی سکول سے آکر کہتے، آج ماسی مٹی بھرے پوچے لگا کر گئی ہے فرشوں پر تو امی کا جواب ملتا، گھر تہاڈا اے، ماسی دا نئیں۔ ایسے یاد رہے ہیں یہ بالواسطہ تربیت بھرے جواب کہ کچھ بھی کر لوں ، آج تک کمی کجی اپنے عمل میں ہی نظر آتی ہے کہ پہلے اپنا گھر آپ صاف کرنا اے۔۔۔

Thursday, March 9, 2023

اظہار کا سفر

 اظہار کا یہ سفر عاجزی اور التجا کا سفر ہے ۔۔۔۔۔ آنے والے لفظ، اترنے والے خیال اور طاری ہونے والی کیفیت پر کسی کا کوئ اختیار نہیں کہ وہ جب اور جیسا چاہے انھیں اپنے دائرہ_اظہار میں لے آئے۔ یہ سب توفیق کی کرشمہ سازی ہے ۔۔۔ ایک ہی بات۔۔۔۔۔ ایک ہی ماحول اور ایک ہی منظر یا فضا کو توفیق_بیان یکسر بدل دیتی ہے ۔۔۔۔ تو معاملہ جب توفیق کا ہو تو کیسا اختلاف؟ یہ عاجزی و التجا کا سفر ہے ۔۔۔۔ عاجزی و التجا کا سفر ۔۔۔

عزم بہزاد

Friday, February 24, 2023

سلام ان پر۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایسے لوگ داخل ہوں گے جن کے دل چڑیوں کی طرح ہوں گے۔

 اور ان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بے شمار اور لگاتار درود و سلام جو اس بچے کے پاس اس کی دلجوئی کی خاطر دن بھر بیٹھ رہے تھے جس کی پالتو چڑیا مر گئی تھی، وہ جو کسی یتیم کے سامنے اپنی اولاد کو محبت سے پکارنے سے منع فرماتے تھے، درود و سلام ان پر جنہیں ہر کسی کے دل کی سلامتی کا اس قدر خیال تھا، درود و سلام ان پر کہ جنہوں نے ممتاز ترین ہو کر بھی ہر امتیاز کو رد کیا، جنہوں نے وجہ وجود کائنات ہو کر بھی عام رہنا پسند کیا کہ ہم سے عامی ان سے نسبت رکھ سکیں، جنہوں نے رعب نبوت سے کانپنے والے بدو سے فرمایا تھا، مت ڈرو کہ میں اس غریب ماں کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت پکا کر کھاتی تھیں۔ درود وسلام ان پر، مدینہ میں ایک دیوانی بڑھیا جن کا ہاتھ تھام کر دیر تک ان کے کان میں اپنی دیوانگی بھری باتیں کرتی رہتی اور آپ مسکراتے رہتے، سنتے ہی رہتے۔ ایک روز حضرت عمر نے اس عورت کا ہاتھ جھٹک کر پرے کیا اور کہا یا رسول اللہ یہ تو پاگل ہے، اس کی تو شہر بھر میں کوئی بھی نہیں سنتا۔ آپ نے فرمایا کوئی بھی نہیں سنتا تو کیا میں بھی نہ سنوں۔ سلام ان پر کہ جنہوں نے طائف میں رب ذوالجلال کو رب مستضعفین کہہ کر پکارا۔ کمزوروں کا رب، بے نوائوں کا رب، تنہا رہ جانے والوں کا رب ۔ درود و سلام ان پر ، میرے ماں باپ قربان ان پر کہ جنہوں نے انصار سے فرمایا کہ کیا تمہیں قبول نہیں کہ مکہ والے سارا مال غنیمت اونٹ بکریاں لے جائیں اور تم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو۔

 آواز سی آئی میرے قدموں پہ قدم رکھ۔۔۔

 آواز سی آئی میرے قدموں پہ قدم رکھ۔۔۔

جب تک یاد زندہ ہے،ساتھ زندہ ہے۔
دل و وجود کا کوئی حصہ جانے والوں کے ساتھ چلا جاتا ہے تو وہیں جانے والوں کا کوئی حصہ ہمارے ساتھ زندہ رہتا ہے۔
جب ساری دنیا ہی جھٹلاتی نظر آئے، دیکھ کر اَن دیکھا کرتی نظر آئے، نفی کرتی نظر آئے، جب خود سے ہی اپنا ہی اعتبار اٹھتا محسوس ہوتا ہو ، تو یہ انہی کے وسیلے ملا زندہ یقین ہے جو ڈھارس دیتا ہے،قدموں کو راہ اور آرزو کو فلاح کی دعا دیتا ہے۔
یاد دلاتا ہے You are an infinite player
عکس: ایک خط الطاف فاطمہ آپا کا
اور ایک ای میل سر عزم بہزاد کی






Thursday, January 19, 2023

ہندسے اور لفظ

اعداد و شمار، نمبرز اور فگرز، نتیجہ ہوتے ہیں، مقصد نہیں۔ مقصد الفاظ کی صورت بیان ہوتا ہے، نتیجہ ہندسوں کی صورت۔۔۔۔۔
مگر ہم نے ہندسوں کو مقصد اور لفظوں کو حتمی نتیجہ سمجھ لیا ہے۔
 

Monday, October 17, 2022

راہ نما

​کون ہوتا ہے لیڈر۔۔۔ وہ جو رہنما ہو، راہ نما۔۔۔ یعنی نامعلوم (راہ، حالات ، مستقبل) کی طرف سب سے پہلے قدم اٹھانے والا، اس راہ، حالات، مستقبل کو موافق بنانے والا۔۔۔ پہلا جو نامعلوم کے خوف پر غالب آئے۔ جس کے پاس خواب ہوں، وہ جس کے پاس مستقبل کا وژن ہو۔۔۔
وہ جو اپنے مفاد کو ہمارے عام تر عوام کے مستقبل پر قربان کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔
جو ’’میں‘‘ کو ’’ہم‘‘ پر قربان کر دے۔۔۔
جو آگے تک دیکھ سکتا ہو، کیوں کہ وہ آگے ہوتا ہے، بصارت میں ، بصیرت میں۔
اور اس قربانی کے نتیجے میں عام تر عوام اس کو اپنا اعتماد دیتے ہیں، اس کے وژن کو اپناتے ہیں اور اسے حقیقت بنانے کی خاطر خون پسینہ ایک کرتے ہیں۔ خود کو فخر سے ان کا فالوور کہتے ہیں۔

مگر۔۔۔۔ بات یہ ہے کہ نہ وژن ہے، نہ دانش نہ حکمت، نہ ہی بنیادی عقل۔۔۔ یہ کہ یہ عام تر عوام یہ کیڑے مکوڑے ہی زندہ نہ رہے تو طاقت و حکومت کا شوق کس پر پورا ہوگا۔۔۔


Monday, July 18, 2022

زندگی

 زندہ لوگوں میں زندگی نظر آنی چاہیے، آنکھ کے آنسو کی صورت سہی، ہونٹوں کی ہنسی کی صورت سہی، ماتھے کی شکن کی صورت سہی، زندہ لوگوں میں زندگی نظر آنی چاہیے۔۔۔

Friday, July 8, 2022

احمد جاوید صاحب کی ایک گفتگو بلکہ تنقید۔۔۔۔

کچھ مشکل باتیں، سوشل میڈیا کے بارے ، سوشل میڈیا پر ہی۔۔۔
احمد جاوید صاحب کی ایک گفتگو بلکہ تنقید۔۔۔۔
"وہم کہ آج کا عام آدمی اتنا جانتا ہے کہ جو پچھلے دور کا عالم نہیں جانتا تھا مگر اس جاننے کی تفصیل پوچھی جائے تومعلوم ہو کہ جاننے کا وہم تو ہے مگر جاننے کا نتیجہ اسے نصیب نہیں ہوا۔۔۔"
یہ وہم کیوں ۔۔ کیوں کہ رسائی بڑھ گئی ہے۔۔ مگر جذب کے لیے درکار وقت ہم صرف کرنا نہیں چاہتے۔۔۔ کسی نے لکھا تھا، "انسان تین چیزوں سے خائف رہتا ہے: موت، دوسرے لوگ، اور خود اس کا اپنا ذہن۔۔۔ "
اپنا ذہن to which I have to forever throw scraps to feed on, or it would devour me the moment it isn't chewing on something else... and those scraps give me the illusion of knowledge :)
علم کا وہم، علمی روایات سے بے تعلقی، اور اس وہم اور بے تعلقی کے باوجود علم کا غرور، ادب و مروت و اخلاق سے بداخلاقی، بے مروتی اور احساس سے بے حسی کی جانب سفر،بدلحاظی اور بدلحاظی کو جرات اور حق گوئی سمجھنے کا گمان، ہر کسی پر شک اور بدگمانی، دوسروں کی انفرادیت کو تسلیم کرنے سے انکار، برداشت و تحمل کی کمی، انسان کو انسان نہ سمجھنا (خامیوں اور خوبیوں کا مجموعہ انسان، ہمارے ایک استاد محترم کا کہنا ہے کہ غلطی کرنا انسان کا حق ہے، غلطی کا شعور ذمہ داری، اور یہ ایسا آزاد کر دینے والا خیال ہے)، اختلاف کو دشمنی بنا لینے کا رحجان، ’’میں‘‘ اور بس ’’میں ‘‘ کا پہاڑہ، شہرت پسندی، اور پھر محبتوں اور عقیدتوں میں مبالغہ آمیزی جن سے عقیدت ہے انہیں خدا سمجھ لینے کا رحجان اور پھر کسی روز انہی خدائوں کو ہم لوگ ہی سر سے اٹھا کر زمین پر پٹخ بھی دیتے ہیں،
اپنی پہچان کے بغیر اپنی انفرادیت کا اعلان (رزق روزی کے حصول کا ذریعہ آپ کی پہچان نہیں ہوتا، ہم میں سے کتنے اپنا تعارف بغیر اپنی تعریف کے اور بغیر اپنے پروفیشن اور ڈگری کے بیان کے کروا سکتے ہیں؟)، کھوکھلی شخصیتیں جن کا بیان سوا چیزوں سے پہچان اور سوائے ظاہر اور ظاہر کی کامیابی کے کچھ نہیں، بے جا اظہارِ ذات، اظہارِ ذات کی حد سے بڑھی خواہش بھی تکبر ہوتی ہے (یہی آج کے اس سوشل میڈیا کی تصویر ہے)۔

پھر غالب کہہ گئے کہ مے سے غرض ہے کس رُوسیاہ کو۔۔۔۔اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے۔۔۔ اک گونہ بے خودی، اڈکشن یا لت کی تعریف یہی ہے۔۔۔۔
something which numbs the pain..
something which traumatized people seek to numb their unresolved traumas and unrecognized pains, which toxic culture imposes on them.. and in result it's mindlessness that we seek and not mindfulness what we need...
we shy away from our authentic selves...
authentic self....
اپنی اصل، اپنی حقیقت کا شعور، اپنی پہچان۔۔۔ وہ خود شناسی جو خداشناسی میں ڈھلتی ہے۔۔۔
this shair talks about seeking and reclaiming that authenticity ..
دل ایسی چیز کو ٹھکرا دیا نخوت پسندوں نے
بہت مجبور ہو کر ہم نے آئینِ وفا بدلا
مشرق اور مغرب، احمد جاوید صاحب اور ڈاکٹر گیبر میٹے ایک نقطے پر آملے ہیں.

https://www.youtube.com/watch?v=Gku5_aL5f5o

Monday, June 13, 2022

سر عزم بہزاد کی ای میل ۔ ۳

​​واصف صاحب کہتے ہیں، اپنی زندگی میں کوئی ایک ایسا شخص ضرور ڈھونڈ لینا جو تمہیں خود تم سے زیادہ جانتا ہو۔
میری خوش قسمتی کہ مجھے دو ایسے لوگ ملے، اور اس کو کیا کہا جائے سوائے اللہ کی مرضی کہ دونوں ہی اس جہان سے رخصت ہوگئے۔ الطاف فاطمہ اور عزم بہزاد۔۔۔ دو چلتے مسافر۔۔۔
وہ کہ جنہیں وہ خوبیاں بھی دکھائی دیتی تھیں جو کبھی کسی اور کو تو کیا خود کو بھی نظر نہ آئی تھیں۔ اور وہ جنہیں خامیاں سمجھتی رہی انہیں وہ بھی خوبیاں بن کر نظر آتی تھیں۔
کیسے صیقل سچے آئینے تھے، بس ایک لمحہ لگتا تھا جن کے سامنے اور اپنا آئینہ دل بھی صاف ستھرا ہو جاتا تھا۔
ہوتا بس یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ایک لکیر کھینچ دیتے ہیں،اب آپ چاہے لکیر پیٹیں مگر اس سے پیچھے جانے کی اجازت نہیں،  ایک معیار طے کردیتے ہیں، پھر آپ کچھ بھی کرلیں اُس معیار سے نیچے اترنے کی اجازت نہیں۔۔۔ آگے اور اوپر ہی جانا ہے۔۔۔

14جولائی2010
اللہ تمھیں بہت خوشیاں دے۔
مجھے تمھارا تہذیب یافتہ اور محتاط رویّہ بہت پسند ہے۔
ہر چند کہ فی زمانہ اتنی احتیاط آدمی کو دنیا کی "عارضی" خوشیوں
سے دور رکھتی ہے یا کر دیتی ہے ، لیکن ٹھیک ہے کہ اس کے پیچھے 
بڑے احکامات کی پیروی شامل ہے۔۔۔۔۔ تم نام ، مقام اور دولت و آسائش کی
پروا نہ کرو کہ اللہ نے یہ سب تمھیں دوسری شکل میں عطا کر رکھا ہے۔
تمھارا نام و مقام اللہ کی بارگاہ میں طے کیا جا چکا ہے۔ تم ایک لفظ سے 
چڑتی ہو ، مگر میں پھر دہراوں گا کہ میرا رب کسی کو محروم نہیں رکھتا
اور اگر کوئی کسی پہلو سے محروم ہے تو اسے یا تو کسی اور خانے میں
نوازے رکھتا ہے یا پھر اس کا بہت بڑا اجر اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔ 
رہی دولت و آسائش کی بات تو تمھارا کردار ، تمھارا استقلال ، تمھارا ضبط
اور تمھارا صبر تمھاری بہت بڑی دولت ہے ۔ ان صفات کو پانے کے لیئے 
آدمی دنیا بھر کی دولت بھی لُٹا دے تو نہیں پا سکتا۔۔ 
کبھی کبھی تمھیں مخاطب کرتے ہوئے میری آنکھیں شفقت بھرے آنسووں
سے بھر جاتی ہیں ، جیسے اس وقت۔۔۔ میرے یہ آنسو تمھارے لیئے مسلسل 
دعائیں ہیں ، جنھیں اللہ ضرور قبول کرے گا۔
میں تمھیں اتنا ہی جانتا ہوں ، جتنا تم نے مجھے بتانا چاہا۔۔ یہ عجب تعلق ہے
جس کی بنیاد پاکیزگی اور احتیاط پر قائم ہے۔ 
ہمیشہ خوش اور مطمئن رہنے کی کوشش کرو کہ ہم معمول سے زیادہ کچھ
نہیں ، ہمارے بارے میں تمام فیصلے لوح _محفوظ پر مکتوب ہیں۔

Monday, April 11, 2022

غم

 حضرت یعقوب چالیس برس اپنے بیٹے حضرت یوسف کے لیے گریہ کرتے رہے۔

غم، ناشکرگزاری نہیں ہوتا۔

غم اور آنسو اپنے مالک کے حضور اپنی بے بسی اور عاجزی کا اظہار ہوتے ہیں۔

اپنے کچھ بھی نہ ہونے کا  اقرار ہوتے ہیں۔


Saturday, February 12, 2022

سوال

 سوال اکثر اوقات اپنی علمیت کے بیان کے لیے یا پھر دوسرے کی علمیت کے امتحان کے لیے کیا جاتا ہے۔

Friday, October 15, 2021

سر عزم بہزاد کی ای میل ۔ ۲

ایک پرانی ای میل مرشد کی۔۔۔سر عزم بہزاد کی
سر پر دھرے شفقت بھرے ہاتھوں میں سے ایک، میرے چراغوں میں سے ایک چراغ

15اکتوبر2008

اکّااااا !
تم بعض اوقات ضرورت سے زیادہ حساس ہوجاتی ہو، تمہاری یہ حساسیت تمہاری تعلیم اور حصولِ علم کی خواہش کی پیداکردہ ہے۔ یہ وہ حساسیت ہے جسے اکثروبیشتر تمہاری تنہائی بڑھا دیتی ہے۔
میں نے اپنی اب تک کی عمر میں بہت تعلق نبھائے، اتنے تعلقات کہ کوئی مجھے ’’تعلق دار’’ کوئی ’’شکارِ احباب‘‘ اور کوئی ’’ہمدرد دواخانہ‘‘ یا ’’حکیم سعید‘‘ کہا کرتا۔  میں یہ سب سنتا اور پھر اپنے گرد جمع ہجوم میں کھو جاتا۔ بہت دن بعد میرے اندر ایک احتساب نے جنم لیا جس کا تقاضا تھا کہ اپنے اطراف جمع بھیڑ کو غور سے دیکھو اور فیصلہ کرو کہ کتنے لوگ تم سے مخلص ہیں اور کتنے محض ’’خوش وقتی‘‘ کے لیے موجود ہیں؟
مجھے یہ جواب ملا کہ سب کے سب خوش وقتی کے لیے جمع ہیں اور اپنی اپنی اننگز کھیل کر بھاگ جائیں گے۔ میں جانے کس مٹی کا بنا ہوں کہ میں نے یہ سب جانتے ہوئے بھی نتیجہ وقت پر چھوڑا اور خوش وقتی کرنے والوں سے ’’خوش دلی‘‘ سے ملتا رہا۔ آخر وہ وقت آیا کہ سب ’’اسیرانِ خوش وقتی‘‘ ایک ایک کر کے منظر سے غائب ہونے لگے۔ اُن ہی دنوں ایک عجیب احساس میرے اندر پیدا ہوا (جو آج بھی پوری قوت سے موجود ہے) کہ مجھے نقصان کا صدمہ نہیں ہو پایا بلکہ بعض مقامات پر تو ایسا لگا کہ دل کا کوئی بوجھ ہلکا ہو گیا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ یہ احساس خاموشی سے میری شاعری کے اندر بھی در آیا اور جانے والوں کے میری غزلوں میں جا بجا اشعار نظر آنے لگے، مثلاً

عمر کے حیرت خانے میں اب یہ سوچتے رہتے ہیں

تم کو بھول گئے ہیں ہم یا جسم سے گرد اتاری ہے

یا 

اب تو ملال بھی نہیں یعنی خیال بھی نہیں

کون کہاں بچھڑ گیا تیز ہوا کے شور میں 

یا

شاخِ دل کی ہریالی خواب کا بیاں ٹھہری

میں نے جس کو نم رکھا وہ زمیں ہی بنجر تھی

تو اکّا ان باتوں پر ملول نہ ہوا کرو اور اگر ملال زیادہ ہو تو ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھ لیا کرو۔

میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔
اللہ حافظ

Wednesday, August 18, 2021

ازلی تنہائی کا بیان ۔ سر عزم بہزاد کی ای میل ۔ ۱

واصف صاحب کہتے ہیں، محسن کے احسان کو یاد رکھنے سے اللہ کا شکر ادا ہوجاتا ہے۔ یہ کہ محسن کے ساتھ وفا کی جانی چاہیے۔ یہ تو عنایت ہے اللہ کی کہ زندگی کے ہر حصے میں کسی نہ کسی کو بھیجتا رہا ہے وہ، انسان، محسن، یا خیال یا لفظ، یا پھر کبھی کہیں حبس میں ہوا کا جھونکا ہی، یہی احساس دلانے کو وہ کبھی کسی کو تنہا نہیں چھوڑتا ، کبھی کسی کو بھولتا نہیں۔
تو انہی میں سے ایک ہیں سر عزم بہزاد، ایک بے حد شفیق ہستی، ایک مہربان استاد ، ایک مخلص دوست، اور ایک بے حد نیک انسان۔۔۔ اس بلاگ کا نام انہی کے ایک مصرعہ پر رکھا گیا ہے۔۔۔
کسی شاخِ سبز کی چھائوں میں ، کوئی خار چبھ گیا پائوں میں
میں زیادہ دیر جو چپ رہا تو فضا کی چیخ نکل گئی
ایک بار انہیں بتایا تھا کہ میری بھتیجی مجھے اکّا کہتی ہے ، پھر بھتیجی تو چاہے بھول گئی ہو اکّا کہنا، انہوں نے یاد رکھا اور مجھے ہمیشہ اسی نام سے پکارا۔ارادہ ہے کہ ان کی کچھ ای میلز یہاں اس نیت سے شیئر کی جائیں کہ اور لوگوں کو بھی شاید اس سے کچھ رہنمائی مل سکے، اور یہ جانے والوں کے لیے بھی صدقہ جاریہ کا سبب بنے۔ اگر آپ یہ پڑھ رہے ہیں تو ان کے لیے دعائے مغفرت ضرور کیجئے گا۔ رب العزت اُن کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ 

ان کی28فروری 2008 کی ایک ای میل۔

وعلیکم سلام اکّا
تمہاری یہ تحریر مجھے بہت بے ربط لگی۔ تم میرے مشوروں پر عمل کرنے کی بجائے اپنے آپ میں الجھتی جا رہی ہو۔ تمہارے سوالات حق بجانب ہیں لیکن یہ دنیا ہے، یہ ہر سوال کا مدلل جواب دینا جانتی ہے۔ تمہیں تمہارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے، لیکن یہ تمہاری تشفی نہیں کرسکیں گے۔ وجہ یہ کہ دنیا میں رائج جوابات مادی اور عقلی رویوں کی بنیاد پر ترتیب دئیے گئے ہیں جب کہ ہمارا قبیلہ دل کی آواز سننا چاہتا ہے، ایسی آواز جس پر سود وزیاں کا سایہ نہ ہو۔ تم نے کونڈولیزا رائس کی تقریریں نہیں دیکھیں، بش کو نہیں سنا، ڈک چینی کو نہیں دیکھا، یہ ایک خود ساختہ واقعے یعنی ٹریڈ سینٹر کے منہدم ہونے کے بعد جس جس طرح جھوٹ بول رہے ہیں اور دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کرتے جا رہے ہیں۔ تم ان کے چہروں پرکسی قسم کی شرمندگی نہیں دیکھو گی، کیوں کہ ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔ ہمیں ان کے جواب یوں مطمئن نہیں کرتے کہ ہمارا دل اسے تسلیم نہیں کرتا۔  اِس وقت ہمارے چاروں طرف یہی ہو رہا ہے ۔  ہر مرد اور ہر عورت، ہر بھائی اور ہر بہن ، ہر دوست اور ہر سہیلی سب، کوئی بش ہے تو کوئی رائس یا کوئی مشرف ہے۔
دنیا اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے۔ آج كے انسان کو نفع اور نقصان کا فیصلہ نہیں کرنا پڑتا ، یہ تو شاید اس كے اندر فیڈ ہو گیا ہے۔  آج كے انسان کو جہاں فائدہ  نظر آئے، وہاں بچھ  جاتا ہے ، اور جہاں اس کا نقصان ( یعنی اسے کچھ دینا پڑے ) ہو، وہاں سے وہ اُکھڑجاتا ہے۔ اِس معاشرے میں اگر تم یہ چاہو کہ اگر تم کسی کوتنگ نہیں کرتیں تو کوئی دوسرا تمہیں بھی تنگ نہ کرے،  بھول جاؤ، یہاں بھی تمہیں  مایوسی ہو گی۔  لوگ تمہارا یہ احسان بھی نہیں مانیں گے کہ تم نے کبھی انہیں تنگ نہیں کیا ، کبھی زیر بار نہیں کیا ، وہ اِس كے باوجود تم سے وہ سب کچھ طلب کریں گے جن کا کبھی تم نے ان سے مطالبہ بھی نہیں کیا ہو گا۔
اب اسی بات کا دوسرا رخ دیکھو۔ میں نے تم سے کہا تھا ،ہم سب تنہا ہیں اور اپنی تنہائی کو فراموش کرنے كے لیے نت نئے مشاغل ایجاد کرتے رہتے ہیں ۔ اگر ذہنی رَو مادی ہو تو ہر مشغلے اور رشتے كے پیچھے کوئی جسمانی مادی فا ئدہ کارفرما ہو گا۔ اگر ذہنی رَو روحانی ( غیر مادی ) ہو تو ہر مشغلہ اور ہر رشتہ تسکین قلب کا متقاضی ہو گا۔ تم اور ہم اِس دوسرےقبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ قبیلہ دنیا کی نگاہ میں زیاں کار سمجھا جاتا ہے۔ اِس مسئلے کو غور سے دیکھو تو ہے یہ تنہائی کا مسئلہ ہی ، اُدھر مادی اور جسمانی مفاد اور اِدھر عزتِ نفس اور تسکین قلب کا مطالبہ۔
اکّا ! تم اپنی تنہائی سے لڑ رہی ہو ،مسئلہ ایڈجسمنٹ کا ہے ، تم اِس لڑائی میں اپنا محفوظ مورچہ نہیں بنا پا رہیں، وجہ ایسی مصروفیات کی کمی جس میں کچھ دیر کو آدمی اپنی تنہائی کو بھول جائے۔ یہ رشتے جو ہمارے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں، ان سے محبت اِس لیےہوتی ہے کہ یہ ہماری تنہائی بھلانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ہم ان میں گُھل مل کر اپنی تنہائی کو فراموش کیے رہتے ہیں۔ تنہائی کو بھلانے یا صیقل کرنے کا بہترین ذریعہ اپنے آپ کو دریافت کرنا ہے۔ یہ سیلف ڈسکوری کا ہنر شاعروں كے پاس سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ جو دِل پہ گزرتی ہے، وہ تو رقم کرتے ہی ہیں لیکن اِس سے بھی آگے وہ بھی رقم کر جاتے ہیں جو دِل پر گزرنے سے وجود پر رقم ہوتی ہے ۔ یہ ہے اس ازلی تنہائی کا بیان جو ہم سب کا مقدر ہے۔
تمہیں اب کوئی ملازمت کر لینی چاہیے، یہ میں  یوں کہہ رہا ہوں کہ ہم جیسے زیاں کاروں کو دنیا کا محتاج نہیں ہونا چاہیے ۔
 مت گھبراؤ اِس دنیا سے ، اِس پر سوالات بھی نہ کرو۔ اسے بس تیسری آنکھ سے دیکھتی جاؤ اور جہاں مناسب ہو وہاں کوئی جملہ  بھی ٹکا دو۔ اپنی اِس بات کا اختتام اپنے اِس شعر پر کروں گا :
اِس رونق میں شامل سب چہرے ہیں خالی خالی
تنہا رہنے والے یا تنہا رہ جانے والے
اللہ تمہیں بہت خوشیاں دے ۔
اللہ حافظ


Friday, March 19, 2021

مہمانوں سے مہمان سرا کچھ کہتی ہے


پچھلے برس یہی دن تھے، یا ہفتے بھر بعد یہی دن آنے کو تھے، کہ یہ سارا ہجوم انسانوں کا کچھ ہفتے کو منظر سے ہٹ گیا تھا، اور فطرت نے کھل کر سانس لی تھی۔۔۔ وہی سڑکیں جہاں تیزرفتار ٹریفک میں کئی بار بلیوں اور پرندوں کے لاشے بے طرح کچلے جاتے ہیں، وہ سڑکیں خالی تھیں اور ان پر پرندوں کی ڈاریں آزادی سے اترتی تھیں۔ گرد اور دھویں میں اٹا مٹیالا سا آسمان ایک نیلگوں وسعت میں ڈھل گیا تھا جو نگاہ کو عجب سکون دیتی تھی۔ سڑک کنارے درختوں کے جھنڈ جن کے پتے ہمہ وقت گرد دھول میں اٹے رہتے تھے، دھلے دھلائے خوشی سے دمکتے تھے۔ مہمانوں سے مہمان سرا کچھ کہتی تھی، کہتی ہے۔۔۔ اور مہمان ایسی افراتفری میں ایسی بھاگم دوڑ میں ہیں کہ پل بھر کی فرصت نہیں۔ پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ ساری مصروفیتیں پل بھر میں بے معانی ہوجاتی ہیں، فنا ہو جاتی ہیں۔ ایک ندا آتی ہے اور اَن چاہے سہی یا دل سے، سب سامان یہیں چھوڑ چھاڑ جانا ہوتا ہے، حاضر سائیں!

البتہ کہانی یہ اس مہمان سرا کی خالی سڑکوں اور اس کے کناروں سر اٹھائے کھڑے ان درختوں کی ہے جو کالج یونیورسٹی اور کام وام کے سب دنوں کے ساتھی ہیں، اتنے کہ اب تو نہر کنارے اگے ان درختوں کی ایک جھلک سی بھی اس علاقے کی پہچان کروا دیتی ہے۔ کہاں کہاں آموں کے جھنڈ ہیں، جو فروری کے جاتے جاتے سونے جیسے بُور سے لد جاتے ہیں جیسے گہنے پہن لیے ہوں۔ کدھر جامن کی قطاریں ہیں، کہیں وہ بید مجنوں جو گرمیوں کی لو میں کسی مجنون کی طرح بال بکھرائے جھومتے ہیں، سنبل کہ سرخ پھولوں سے لدے یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے کوئی سرخ سرخ ہتھیلیاں پھیلائے دعاگو ہو، ڈھاک تلے بچھے سرخ قالین، گُل مہرکے نازک پتے اور پھول، وہ گولہڑ کا حیران کرنے والا درخت، کئی فٹ کے دائرے میں پھیلے ہوا میں بارش کی دُھن بجاتے رین ٹری، ارغوانی پھولوں سے لدے کچنار، شیشم، اشوک، ارجن، نیم کے ننھے سفید پھول، دھریک کا کاسنی غبار اور اس کی خوشبو، تالیاں پیٹتے پیپل، سراٹھائے سفیدے ۔۔۔ اپریل کے بعد سے جون جولائی تک بنفشی رنگ کے پھولوں سے لدے ہوئے پیڑ جن کا نام مجھے اب معلوم ہوا، جرول، کریپ مرٹل۔۔۔ اور کئی ایسے ساتھی جن کے ناموں سے میں واقف نہیں، اپریل سے جون تک سفید پھولوں سے لدے پیڑ جیسے کسی نے زمین پر بڑے بڑے گلدستے لگا دئیے ہوں۔۔۔ وہ جن کی شاخوں پر بہار آتے ہی گلابی پھول آجاتے ہیں اور پتا ایک نہیں ہوتا۔ املتاس جس کے نوخیز پتوں سے چھن کر آتی سہ پہر کی دھوپ کسی اور جہان کا پتہ بتاتی ہے، جس کی باریک تار سی صورت کی کلیاں ڈھلتی دھوپ میں جھلملاتی ہیں اور پھر یکایک ایک صبح وہ روشنی سے لد جاتا ہے۔ کہیں کہیں اپنی جٹائیں پھیلائے سادھو برگد۔ اکتوبر آتے ہی کئی سڑکوں پر پھیلتی ایک پُراسرار مہک، السٹونیا کی۔  پھر جنگلی گلاب کی بیلیں، بوگن ویلیا کے پھولوں کی برسات۔ مئی جون کے مہینوں میں مال پر زرد رین للی کی بہاریں۔ کیسا کتنا بھرپور حُسن ہے۔۔

ایک مٹی، ایک ہوا، ایک پانی، مگر ہر ایک کا رنگ جدا ہے، ہر پھل کی صورت اور ذائقہ جدا ہے۔ اور کوئی کسی سے مسابقت میں نہیں ہے، سب اپنے اپنے عالم میں سرنگوں محو ثنا ہیں جیسے۔ اپنے رنگ، اپنے ثمر، اپنی صورت پر راضی۔ خزاں آتی ہے تو خالق کی نگہبان نگاہوں میں سر جھکائے ہر سردوگرم برداشت کرتے، حکم کے، حرفِ کُن کے منتظر رہتے ہیں۔ وقت آتا ہے تو اس کی ثنا کرتے اس کی یاد دلاتے جاگ اٹھتے ہیں۔ اور کوئی وہ ہیں کہ جن پر عین خزاں کی رُت میں گلابی بہار اترتی ہے، بدھا کا درخت۔ یعنی ہر کسی کے لیے وقت کا دورانیہ مختلف ہے، اور یہ بھی کہ وہ چاہے تو خزاں میں بہار لے آئے۔کمال کا خاصا ظہور ہے، مجھے یہی لگتا ہے کہ انہیں بھی حکم ہوتا ہے کہ اب ظہور کا وقت ہے، کلام کا وقت ہے۔ نشانی بننے کا، پہچان سمجھانے کا سمے۔
ایک مٹی، ایک ہوا، ایک پانی، انسان بھی تو ایسے ہیں ہیں، محوسفر، کوئی کسی کی مسابقت میں نہیں، سب کا رنگ سب کا ثمر جدا ہے بس، سفر بھی، جدا اور تنہا، خالق کے حضور سب تن تنہا ہیں، میانِ نگاہ و دریچہ، اس واسطے میں کسی تماشائی کی گنجائش نہیں۔ جتنے راہی ہیں اتنی ہی راہیں ہیں، کوئی کسی کے خلاف نہیں۔ ہر سفر کی حالت اور نوعیت الگ ہے، سمت ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی تنہا ہے اور یہی سبب ہے کہ ہر لمحے ہر عالم میں نرمی اور محبت بانٹنے کی ضرورت ہے۔

Monday, March 15, 2021

ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔۔۔

 ادب راہ کا پہلا چراغ ہے۔ 

اسی لیے کسی کے جھوٹے خدا کو بھی برا کہنے سے منع کیا گیا کہ سجا رکھے ہیں لوگوں نے دلوں میں۔  خدا جھوٹا ہے، عقیدت تو سچی ہے۔ آبگینوں کی حفاظت کا فرمان ہے۔ پھر جہاں خدا، ادب اور عقیدت سچی بھی ہو۔۔۔۔خدارا اسے ہنسی ٹھٹھول کا حصہ مت بنائیے۔۔۔
کسی یتیم کے سامنے اپنی اولاد کو پیار کرنے سے، ہمسایہ غریب ہو تو پھل کھا کر چھلکے باہر پھینکنے سے، دُکھی کے سامنے اپنی خوشی کے مظاہرے سے اسی لیے منع کیا گیا ہے۔۔۔ کسی میں محرومی کا احساس جگانا، محرومی کا احساس جو رحمتوں سے مایوس کرنے لگے۔۔۔۔
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم۔۔۔ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔۔۔