Friday, October 15, 2021

سر عزم بہزاد کی ای میل ۔ ۲

ایک پرانی ای میل مرشد کی۔۔۔سر عزم بہزاد کی
سر پر دھرے شفقت بھرے ہاتھوں میں سے ایک، میرے چراغوں میں سے ایک چراغ

15اکتوبر2008

اکّااااا !
تم بعض اوقات ضرورت سے زیادہ حساس ہوجاتی ہو، تمہاری یہ حساسیت تمہاری تعلیم اور حصولِ علم کی خواہش کی پیداکردہ ہے۔ یہ وہ حساسیت ہے جسے اکثروبیشتر تمہاری تنہائی بڑھا دیتی ہے۔
میں نے اپنی اب تک کی عمر میں بہت تعلق نبھائے، اتنے تعلقات کہ کوئی مجھے ’’تعلق دار’’ کوئی ’’شکارِ احباب‘‘ اور کوئی ’’ہمدرد دواخانہ‘‘ یا ’’حکیم سعید‘‘ کہا کرتا۔  میں یہ سب سنتا اور پھر اپنے گرد جمع ہجوم میں کھو جاتا۔ بہت دن بعد میرے اندر ایک احتساب نے جنم لیا جس کا تقاضا تھا کہ اپنے اطراف جمع بھیڑ کو غور سے دیکھو اور فیصلہ کرو کہ کتنے لوگ تم سے مخلص ہیں اور کتنے محض ’’خوش وقتی‘‘ کے لیے موجود ہیں؟
مجھے یہ جواب ملا کہ سب کے سب خوش وقتی کے لیے جمع ہیں اور اپنی اپنی اننگز کھیل کر بھاگ جائیں گے۔ میں جانے کس مٹی کا بنا ہوں کہ میں نے یہ سب جانتے ہوئے بھی نتیجہ وقت پر چھوڑا اور خوش وقتی کرنے والوں سے ’’خوش دلی‘‘ سے ملتا رہا۔ آخر وہ وقت آیا کہ سب ’’اسیرانِ خوش وقتی‘‘ ایک ایک کر کے منظر سے غائب ہونے لگے۔ اُن ہی دنوں ایک عجیب احساس میرے اندر پیدا ہوا (جو آج بھی پوری قوت سے موجود ہے) کہ مجھے نقصان کا صدمہ نہیں ہو پایا بلکہ بعض مقامات پر تو ایسا لگا کہ دل کا کوئی بوجھ ہلکا ہو گیا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ یہ احساس خاموشی سے میری شاعری کے اندر بھی در آیا اور جانے والوں کے میری غزلوں میں جا بجا اشعار نظر آنے لگے، مثلاً

عمر کے حیرت خانے میں اب یہ سوچتے رہتے ہیں

تم کو بھول گئے ہیں ہم یا جسم سے گرد اتاری ہے

یا 

اب تو ملال بھی نہیں یعنی خیال بھی نہیں

کون کہاں بچھڑ گیا تیز ہوا کے شور میں 

یا

شاخِ دل کی ہریالی خواب کا بیاں ٹھہری

میں نے جس کو نم رکھا وہ زمیں ہی بنجر تھی

تو اکّا ان باتوں پر ملول نہ ہوا کرو اور اگر ملال زیادہ ہو تو ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھ لیا کرو۔

میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔
اللہ حافظ

Wednesday, August 18, 2021

ازلی تنہائی کا بیان ۔ سر عزم بہزاد کی ای میل ۔ ۱

واصف صاحب کہتے ہیں، محسن کے احسان کو یاد رکھنے سے اللہ کا شکر ادا ہوجاتا ہے۔ یہ کہ محسن کے ساتھ وفا کی جانی چاہیے۔ یہ تو عنایت ہے اللہ کی کہ زندگی کے ہر حصے میں کسی نہ کسی کو بھیجتا رہا ہے وہ، انسان، محسن، یا خیال یا لفظ، یا پھر کبھی کہیں حبس میں ہوا کا جھونکا ہی، یہی احساس دلانے کو وہ کبھی کسی کو تنہا نہیں چھوڑتا ، کبھی کسی کو بھولتا نہیں۔
تو انہی میں سے ایک ہیں سر عزم بہزاد، ایک بے حد شفیق ہستی، ایک مہربان استاد ، ایک مخلص دوست، اور ایک بے حد نیک انسان۔۔۔ اس بلاگ کا نام انہی کے ایک مصرعہ پر رکھا گیا ہے۔۔۔
کسی شاخِ سبز کی چھائوں میں ، کوئی خار چبھ گیا پائوں میں
میں زیادہ دیر جو چپ رہا تو فضا کی چیخ نکل گئی
ایک بار انہیں بتایا تھا کہ میری بھتیجی مجھے اکّا کہتی ہے ، پھر بھتیجی تو چاہے بھول گئی ہو اکّا کہنا، انہوں نے یاد رکھا اور مجھے ہمیشہ اسی نام سے پکارا۔ارادہ ہے کہ ان کی کچھ ای میلز یہاں اس نیت سے شیئر کی جائیں کہ اور لوگوں کو بھی شاید اس سے کچھ رہنمائی مل سکے، اور یہ جانے والوں کے لیے بھی صدقہ جاریہ کا سبب بنے۔ اگر آپ یہ پڑھ رہے ہیں تو ان کے لیے دعائے مغفرت ضرور کیجئے گا۔ رب العزت اُن کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ 

ان کی28فروری 2008 کی ایک ای میل۔

وعلیکم سلام اکّا
تمہاری یہ تحریر مجھے بہت بے ربط لگی۔ تم میرے مشوروں پر عمل کرنے کی بجائے اپنے آپ میں الجھتی جا رہی ہو۔ تمہارے سوالات حق بجانب ہیں لیکن یہ دنیا ہے، یہ ہر سوال کا مدلل جواب دینا جانتی ہے۔ تمہیں تمہارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے، لیکن یہ تمہاری تشفی نہیں کرسکیں گے۔ وجہ یہ کہ دنیا میں رائج جوابات مادی اور عقلی رویوں کی بنیاد پر ترتیب دئیے گئے ہیں جب کہ ہمارا قبیلہ دل کی آواز سننا چاہتا ہے، ایسی آواز جس پر سود وزیاں کا سایہ نہ ہو۔ تم نے کونڈولیزا رائس کی تقریریں نہیں دیکھیں، بش کو نہیں سنا، ڈک چینی کو نہیں دیکھا، یہ ایک خود ساختہ واقعے یعنی ٹریڈ سینٹر کے منہدم ہونے کے بعد جس جس طرح جھوٹ بول رہے ہیں اور دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کرتے جا رہے ہیں۔ تم ان کے چہروں پرکسی قسم کی شرمندگی نہیں دیکھو گی، کیوں کہ ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔ ہمیں ان کے جواب یوں مطمئن نہیں کرتے کہ ہمارا دل اسے تسلیم نہیں کرتا۔  اِس وقت ہمارے چاروں طرف یہی ہو رہا ہے ۔  ہر مرد اور ہر عورت، ہر بھائی اور ہر بہن ، ہر دوست اور ہر سہیلی سب، کوئی بش ہے تو کوئی رائس یا کوئی مشرف ہے۔
دنیا اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے۔ آج كے انسان کو نفع اور نقصان کا فیصلہ نہیں کرنا پڑتا ، یہ تو شاید اس كے اندر فیڈ ہو گیا ہے۔  آج كے انسان کو جہاں فائدہ  نظر آئے، وہاں بچھ  جاتا ہے ، اور جہاں اس کا نقصان ( یعنی اسے کچھ دینا پڑے ) ہو، وہاں سے وہ اُکھڑجاتا ہے۔ اِس معاشرے میں اگر تم یہ چاہو کہ اگر تم کسی کوتنگ نہیں کرتیں تو کوئی دوسرا تمہیں بھی تنگ نہ کرے،  بھول جاؤ، یہاں بھی تمہیں  مایوسی ہو گی۔  لوگ تمہارا یہ احسان بھی نہیں مانیں گے کہ تم نے کبھی انہیں تنگ نہیں کیا ، کبھی زیر بار نہیں کیا ، وہ اِس كے باوجود تم سے وہ سب کچھ طلب کریں گے جن کا کبھی تم نے ان سے مطالبہ بھی نہیں کیا ہو گا۔
اب اسی بات کا دوسرا رخ دیکھو۔ میں نے تم سے کہا تھا ،ہم سب تنہا ہیں اور اپنی تنہائی کو فراموش کرنے كے لیے نت نئے مشاغل ایجاد کرتے رہتے ہیں ۔ اگر ذہنی رَو مادی ہو تو ہر مشغلے اور رشتے كے پیچھے کوئی جسمانی مادی فا ئدہ کارفرما ہو گا۔ اگر ذہنی رَو روحانی ( غیر مادی ) ہو تو ہر مشغلہ اور ہر رشتہ تسکین قلب کا متقاضی ہو گا۔ تم اور ہم اِس دوسرےقبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ قبیلہ دنیا کی نگاہ میں زیاں کار سمجھا جاتا ہے۔ اِس مسئلے کو غور سے دیکھو تو ہے یہ تنہائی کا مسئلہ ہی ، اُدھر مادی اور جسمانی مفاد اور اِدھر عزتِ نفس اور تسکین قلب کا مطالبہ۔
اکّا ! تم اپنی تنہائی سے لڑ رہی ہو ،مسئلہ ایڈجسمنٹ کا ہے ، تم اِس لڑائی میں اپنا محفوظ مورچہ نہیں بنا پا رہیں، وجہ ایسی مصروفیات کی کمی جس میں کچھ دیر کو آدمی اپنی تنہائی کو بھول جائے۔ یہ رشتے جو ہمارے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں، ان سے محبت اِس لیےہوتی ہے کہ یہ ہماری تنہائی بھلانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ہم ان میں گُھل مل کر اپنی تنہائی کو فراموش کیے رہتے ہیں۔ تنہائی کو بھلانے یا صیقل کرنے کا بہترین ذریعہ اپنے آپ کو دریافت کرنا ہے۔ یہ سیلف ڈسکوری کا ہنر شاعروں كے پاس سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ جو دِل پہ گزرتی ہے، وہ تو رقم کرتے ہی ہیں لیکن اِس سے بھی آگے وہ بھی رقم کر جاتے ہیں جو دِل پر گزرنے سے وجود پر رقم ہوتی ہے ۔ یہ ہے اس ازلی تنہائی کا بیان جو ہم سب کا مقدر ہے۔
تمہیں اب کوئی ملازمت کر لینی چاہیے، یہ میں  یوں کہہ رہا ہوں کہ ہم جیسے زیاں کاروں کو دنیا کا محتاج نہیں ہونا چاہیے ۔
 مت گھبراؤ اِس دنیا سے ، اِس پر سوالات بھی نہ کرو۔ اسے بس تیسری آنکھ سے دیکھتی جاؤ اور جہاں مناسب ہو وہاں کوئی جملہ  بھی ٹکا دو۔ اپنی اِس بات کا اختتام اپنے اِس شعر پر کروں گا :
اِس رونق میں شامل سب چہرے ہیں خالی خالی
تنہا رہنے والے یا تنہا رہ جانے والے
اللہ تمہیں بہت خوشیاں دے ۔
اللہ حافظ


Friday, March 19, 2021

مہمانوں سے مہمان سرا کچھ کہتی ہے


پچھلے برس یہی دن تھے، یا ہفتے بھر بعد یہی دن آنے کو تھے، کہ یہ سارا ہجوم انسانوں کا کچھ ہفتے کو منظر سے ہٹ گیا تھا، اور فطرت نے کھل کر سانس لی تھی۔۔۔ وہی سڑکیں جہاں تیزرفتار ٹریفک میں کئی بار بلیوں اور پرندوں کے لاشے بے طرح کچلے جاتے ہیں، وہ سڑکیں خالی تھیں اور ان پر پرندوں کی ڈاریں آزادی سے اترتی تھیں۔ گرد اور دھویں میں اٹا مٹیالا سا آسمان ایک نیلگوں وسعت میں ڈھل گیا تھا جو نگاہ کو عجب سکون دیتی تھی۔ سڑک کنارے درختوں کے جھنڈ جن کے پتے ہمہ وقت گرد دھول میں اٹے رہتے تھے، دھلے دھلائے خوشی سے دمکتے تھے۔ مہمانوں سے مہمان سرا کچھ کہتی تھی، کہتی ہے۔۔۔ اور مہمان ایسی افراتفری میں ایسی بھاگم دوڑ میں ہیں کہ پل بھر کی فرصت نہیں۔ پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ ساری مصروفیتیں پل بھر میں بے معانی ہوجاتی ہیں، فنا ہو جاتی ہیں۔ ایک ندا آتی ہے اور اَن چاہے سہی یا دل سے، سب سامان یہیں چھوڑ چھاڑ جانا ہوتا ہے، حاضر سائیں!

البتہ کہانی یہ اس مہمان سرا کی خالی سڑکوں اور اس کے کناروں سر اٹھائے کھڑے ان درختوں کی ہے جو کالج یونیورسٹی اور کام وام کے سب دنوں کے ساتھی ہیں، اتنے کہ اب تو نہر کنارے اگے ان درختوں کی ایک جھلک سی بھی اس علاقے کی پہچان کروا دیتی ہے۔ کہاں کہاں آموں کے جھنڈ ہیں، جو فروری کے جاتے جاتے سونے جیسے بُور سے لد جاتے ہیں جیسے گہنے پہن لیے ہوں۔ کدھر جامن کی قطاریں ہیں، کہیں وہ بید مجنوں جو گرمیوں کی لو میں کسی مجنون کی طرح بال بکھرائے جھومتے ہیں، سنبل کہ سرخ پھولوں سے لدے یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے کوئی سرخ سرخ ہتھیلیاں پھیلائے دعاگو ہو، ڈھاک تلے بچھے سرخ قالین، گُل مہرکے نازک پتے اور پھول، وہ گولہڑ کا حیران کرنے والا درخت، کئی فٹ کے دائرے میں پھیلے ہوا میں بارش کی دُھن بجاتے رین ٹری، ارغوانی پھولوں سے لدے کچنار، شیشم، اشوک، ارجن، نیم کے ننھے سفید پھول، دھریک کا کاسنی غبار اور اس کی خوشبو، تالیاں پیٹتے پیپل، سراٹھائے سفیدے ۔۔۔ اپریل کے بعد سے جون جولائی تک بنفشی رنگ کے پھولوں سے لدے ہوئے پیڑ جن کا نام مجھے اب معلوم ہوا، جرول، کریپ مرٹل۔۔۔ اور کئی ایسے ساتھی جن کے ناموں سے میں واقف نہیں، اپریل سے جون تک سفید پھولوں سے لدے پیڑ جیسے کسی نے زمین پر بڑے بڑے گلدستے لگا دئیے ہوں۔۔۔ وہ جن کی شاخوں پر بہار آتے ہی گلابی پھول آجاتے ہیں اور پتا ایک نہیں ہوتا۔ املتاس جس کے نوخیز پتوں سے چھن کر آتی سہ پہر کی دھوپ کسی اور جہان کا پتہ بتاتی ہے، جس کی باریک تار سی صورت کی کلیاں ڈھلتی دھوپ میں جھلملاتی ہیں اور پھر یکایک ایک صبح وہ روشنی سے لد جاتا ہے۔ کہیں کہیں اپنی جٹائیں پھیلائے سادھو برگد۔ اکتوبر آتے ہی کئی سڑکوں پر پھیلتی ایک پُراسرار مہک، السٹونیا کی۔  پھر جنگلی گلاب کی بیلیں، بوگن ویلیا کے پھولوں کی برسات۔ مئی جون کے مہینوں میں مال پر زرد رین للی کی بہاریں۔ کیسا کتنا بھرپور حُسن ہے۔۔

ایک مٹی، ایک ہوا، ایک پانی، مگر ہر ایک کا رنگ جدا ہے، ہر پھل کی صورت اور ذائقہ جدا ہے۔ اور کوئی کسی سے مسابقت میں نہیں ہے، سب اپنے اپنے عالم میں سرنگوں محو ثنا ہیں جیسے۔ اپنے رنگ، اپنے ثمر، اپنی صورت پر راضی۔ خزاں آتی ہے تو خالق کی نگہبان نگاہوں میں سر جھکائے ہر سردوگرم برداشت کرتے، حکم کے، حرفِ کُن کے منتظر رہتے ہیں۔ وقت آتا ہے تو اس کی ثنا کرتے اس کی یاد دلاتے جاگ اٹھتے ہیں۔ اور کوئی وہ ہیں کہ جن پر عین خزاں کی رُت میں گلابی بہار اترتی ہے، بدھا کا درخت۔ یعنی ہر کسی کے لیے وقت کا دورانیہ مختلف ہے، اور یہ بھی کہ وہ چاہے تو خزاں میں بہار لے آئے۔کمال کا خاصا ظہور ہے، مجھے یہی لگتا ہے کہ انہیں بھی حکم ہوتا ہے کہ اب ظہور کا وقت ہے، کلام کا وقت ہے۔ نشانی بننے کا، پہچان سمجھانے کا سمے۔
ایک مٹی، ایک ہوا، ایک پانی، انسان بھی تو ایسے ہیں ہیں، محوسفر، کوئی کسی کی مسابقت میں نہیں، سب کا رنگ سب کا ثمر جدا ہے بس، سفر بھی، جدا اور تنہا، خالق کے حضور سب تن تنہا ہیں، میانِ نگاہ و دریچہ، اس واسطے میں کسی تماشائی کی گنجائش نہیں۔ جتنے راہی ہیں اتنی ہی راہیں ہیں، کوئی کسی کے خلاف نہیں۔ ہر سفر کی حالت اور نوعیت الگ ہے، سمت ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی تنہا ہے اور یہی سبب ہے کہ ہر لمحے ہر عالم میں نرمی اور محبت بانٹنے کی ضرورت ہے۔

Monday, March 15, 2021

ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔۔۔

 ادب راہ کا پہلا چراغ ہے۔ 

اسی لیے کسی کے جھوٹے خدا کو بھی برا کہنے سے منع کیا گیا کہ سجا رکھے ہیں لوگوں نے دلوں میں۔  خدا جھوٹا ہے، عقیدت تو سچی ہے۔ آبگینوں کی حفاظت کا فرمان ہے۔ پھر جہاں خدا، ادب اور عقیدت سچی بھی ہو۔۔۔۔خدارا اسے ہنسی ٹھٹھول کا حصہ مت بنائیے۔۔۔
کسی یتیم کے سامنے اپنی اولاد کو پیار کرنے سے، ہمسایہ غریب ہو تو پھل کھا کر چھلکے باہر پھینکنے سے، دُکھی کے سامنے اپنی خوشی کے مظاہرے سے اسی لیے منع کیا گیا ہے۔۔۔ کسی میں محرومی کا احساس جگانا، محرومی کا احساس جو رحمتوں سے مایوس کرنے لگے۔۔۔۔
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم۔۔۔ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔۔۔


زمانوں کے پار سے آتی آوازوں کو سلام۔۔۔۔

زمانوں کے پار سے آتی آوازوں کو سلام۔۔۔

گزر جانے کے بعد بھی صفت کی حفاظت میں قائم رہنے والوں کو سلام۔۔۔
فاصلے میں تاریخ میں دور ہستیوں کے بھیجے خیال کو سلام۔۔۔۔
جب نشانِ راہ گم ہو، تو رہنما ہونے والوں کو سلام۔۔۔
جا کر بھی نہ جانے والوں کو سلام۔۔۔۔
وہ جو خود کو ان الانسان لفی خسر کی تفسیر کہتے رہے اور حقیقت میں وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر کی تعبیر بنے رہے۔ وہ کہ جب جب خود سے اعتبار اٹھا تو تھپکی بنے، ڈھارس بنے، تسلی بنے، حوصلہ بنے اور سب سے بڑھ کر آئینہ بنے کہ دیکھو اور جان لو کہ ’’یہ ہو تم اور یہ ہے تمہارا طریقِ حیات۔۔۔‘‘
عکس۔ آپا (الطاف فاطمہ) کا ایک خط