Wednesday, August 18, 2021

ازلی تنہائی کا بیان ۔ سر عزم بہزاد کی ای میل ۔ ۱

واصف صاحب کہتے ہیں، محسن کے احسان کو یاد رکھنے سے اللہ کا شکر ادا ہوجاتا ہے۔ یہ کہ محسن کے ساتھ وفا کی جانی چاہیے۔ یہ تو عنایت ہے اللہ کی کہ زندگی کے ہر حصے میں کسی نہ کسی کو بھیجتا رہا ہے وہ، انسان، محسن، یا خیال یا لفظ، یا پھر کبھی کہیں حبس میں ہوا کا جھونکا ہی، یہی احساس دلانے کو وہ کبھی کسی کو تنہا نہیں چھوڑتا ، کبھی کسی کو بھولتا نہیں۔
تو انہی میں سے ایک ہیں سر عزم بہزاد، ایک بے حد شفیق ہستی، ایک مہربان استاد ، ایک مخلص دوست، اور ایک بے حد نیک انسان۔۔۔ اس بلاگ کا نام انہی کے ایک مصرعہ پر رکھا گیا ہے۔۔۔
کسی شاخِ سبز کی چھائوں میں ، کوئی خار چبھ گیا پائوں میں
میں زیادہ دیر جو چپ رہا تو فضا کی چیخ نکل گئی
ایک بار انہیں بتایا تھا کہ میری بھتیجی مجھے اکّا کہتی ہے ، پھر بھتیجی تو چاہے بھول گئی ہو اکّا کہنا، انہوں نے یاد رکھا اور مجھے ہمیشہ اسی نام سے پکارا۔ارادہ ہے کہ ان کی کچھ ای میلز یہاں اس نیت سے شیئر کی جائیں کہ اور لوگوں کو بھی شاید اس سے کچھ رہنمائی مل سکے، اور یہ جانے والوں کے لیے بھی صدقہ جاریہ کا سبب بنے۔ اگر آپ یہ پڑھ رہے ہیں تو ان کے لیے دعائے مغفرت ضرور کیجئے گا۔ رب العزت اُن کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ 

ان کی28فروری 2008 کی ایک ای میل۔

وعلیکم سلام اکّا
تمہاری یہ تحریر مجھے بہت بے ربط لگی۔ تم میرے مشوروں پر عمل کرنے کی بجائے اپنے آپ میں الجھتی جا رہی ہو۔ تمہارے سوالات حق بجانب ہیں لیکن یہ دنیا ہے، یہ ہر سوال کا مدلل جواب دینا جانتی ہے۔ تمہیں تمہارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے، لیکن یہ تمہاری تشفی نہیں کرسکیں گے۔ وجہ یہ کہ دنیا میں رائج جوابات مادی اور عقلی رویوں کی بنیاد پر ترتیب دئیے گئے ہیں جب کہ ہمارا قبیلہ دل کی آواز سننا چاہتا ہے، ایسی آواز جس پر سود وزیاں کا سایہ نہ ہو۔ تم نے کونڈولیزا رائس کی تقریریں نہیں دیکھیں، بش کو نہیں سنا، ڈک چینی کو نہیں دیکھا، یہ ایک خود ساختہ واقعے یعنی ٹریڈ سینٹر کے منہدم ہونے کے بعد جس جس طرح جھوٹ بول رہے ہیں اور دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کرتے جا رہے ہیں۔ تم ان کے چہروں پرکسی قسم کی شرمندگی نہیں دیکھو گی، کیوں کہ ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔ ہمیں ان کے جواب یوں مطمئن نہیں کرتے کہ ہمارا دل اسے تسلیم نہیں کرتا۔  اِس وقت ہمارے چاروں طرف یہی ہو رہا ہے ۔  ہر مرد اور ہر عورت، ہر بھائی اور ہر بہن ، ہر دوست اور ہر سہیلی سب، کوئی بش ہے تو کوئی رائس یا کوئی مشرف ہے۔
دنیا اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے۔ آج كے انسان کو نفع اور نقصان کا فیصلہ نہیں کرنا پڑتا ، یہ تو شاید اس كے اندر فیڈ ہو گیا ہے۔  آج كے انسان کو جہاں فائدہ  نظر آئے، وہاں بچھ  جاتا ہے ، اور جہاں اس کا نقصان ( یعنی اسے کچھ دینا پڑے ) ہو، وہاں سے وہ اُکھڑجاتا ہے۔ اِس معاشرے میں اگر تم یہ چاہو کہ اگر تم کسی کوتنگ نہیں کرتیں تو کوئی دوسرا تمہیں بھی تنگ نہ کرے،  بھول جاؤ، یہاں بھی تمہیں  مایوسی ہو گی۔  لوگ تمہارا یہ احسان بھی نہیں مانیں گے کہ تم نے کبھی انہیں تنگ نہیں کیا ، کبھی زیر بار نہیں کیا ، وہ اِس كے باوجود تم سے وہ سب کچھ طلب کریں گے جن کا کبھی تم نے ان سے مطالبہ بھی نہیں کیا ہو گا۔
اب اسی بات کا دوسرا رخ دیکھو۔ میں نے تم سے کہا تھا ،ہم سب تنہا ہیں اور اپنی تنہائی کو فراموش کرنے كے لیے نت نئے مشاغل ایجاد کرتے رہتے ہیں ۔ اگر ذہنی رَو مادی ہو تو ہر مشغلے اور رشتے كے پیچھے کوئی جسمانی مادی فا ئدہ کارفرما ہو گا۔ اگر ذہنی رَو روحانی ( غیر مادی ) ہو تو ہر مشغلہ اور ہر رشتہ تسکین قلب کا متقاضی ہو گا۔ تم اور ہم اِس دوسرےقبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ قبیلہ دنیا کی نگاہ میں زیاں کار سمجھا جاتا ہے۔ اِس مسئلے کو غور سے دیکھو تو ہے یہ تنہائی کا مسئلہ ہی ، اُدھر مادی اور جسمانی مفاد اور اِدھر عزتِ نفس اور تسکین قلب کا مطالبہ۔
اکّا ! تم اپنی تنہائی سے لڑ رہی ہو ،مسئلہ ایڈجسمنٹ کا ہے ، تم اِس لڑائی میں اپنا محفوظ مورچہ نہیں بنا پا رہیں، وجہ ایسی مصروفیات کی کمی جس میں کچھ دیر کو آدمی اپنی تنہائی کو بھول جائے۔ یہ رشتے جو ہمارے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں، ان سے محبت اِس لیےہوتی ہے کہ یہ ہماری تنہائی بھلانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ہم ان میں گُھل مل کر اپنی تنہائی کو فراموش کیے رہتے ہیں۔ تنہائی کو بھلانے یا صیقل کرنے کا بہترین ذریعہ اپنے آپ کو دریافت کرنا ہے۔ یہ سیلف ڈسکوری کا ہنر شاعروں كے پاس سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ جو دِل پہ گزرتی ہے، وہ تو رقم کرتے ہی ہیں لیکن اِس سے بھی آگے وہ بھی رقم کر جاتے ہیں جو دِل پر گزرنے سے وجود پر رقم ہوتی ہے ۔ یہ ہے اس ازلی تنہائی کا بیان جو ہم سب کا مقدر ہے۔
تمہیں اب کوئی ملازمت کر لینی چاہیے، یہ میں  یوں کہہ رہا ہوں کہ ہم جیسے زیاں کاروں کو دنیا کا محتاج نہیں ہونا چاہیے ۔
 مت گھبراؤ اِس دنیا سے ، اِس پر سوالات بھی نہ کرو۔ اسے بس تیسری آنکھ سے دیکھتی جاؤ اور جہاں مناسب ہو وہاں کوئی جملہ  بھی ٹکا دو۔ اپنی اِس بات کا اختتام اپنے اِس شعر پر کروں گا :
اِس رونق میں شامل سب چہرے ہیں خالی خالی
تنہا رہنے والے یا تنہا رہ جانے والے
اللہ تمہیں بہت خوشیاں دے ۔
اللہ حافظ


No comments:

Post a Comment