Monday, August 3, 2020

کچھ اردو کے ہندی رسم الخط میں لکھنے کے بارے میں

ایسا تجربہ ہمعصر تاریخ میں ہوچکا ہے تو کیوں نہ اس پر نظر کرلی جائے، ترکی میں ’’ایک ملک ایک قوم ایک زبان‘‘ کی بنیاد پر اتاترک نے ترکی زبان کا رسم الخط بدلا ، یاد رہے کہ عثمانی ترکی دربار اور شرفا کی زبان تھی جس پر فارسی اور عربی کا اثر تھا، زبان کے رسم الخط کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ترکی زبان کو ان اثرات سے پاک کیا گیا، اور باقاعدہ ادارہ تشکیل دیا گیا تھا جس کے ذریعے طے کیا گیا کہ کون سے الفاظ کو شامل رکھا جائے اور کن کو بالکل نکال دیا جائے۔ مزید یہ کہ رسم الخط کی تبدیلی اصلاحات کے ایک پورے سلسلے کا حصہ تھی جس میں قدامت پرستی سے جدت کی طرف رخ کیا گیا۔ یعنی پوری تہذیب کا گویا رخ طے کیا گیا۔ اس تبدیلی کو نئی نسل نے تو بڑی جلدی قبول کیا لیکن احمت حمدی طانپنار اور عدالت آعولو اور ان جیسے بہت سے ادیبوں نے صحاف لار میں ردی میں بکتی ان کتابوں کا نوحہ تاعمر لکھا جنہیں ان کے عثمانی ترکی رسم الخط کے باعث نئی نسل پڑھنے کے قابل نہ رہی تھی۔
(لسانیات کا کوئی بھی ماہر بتا سکتا ہے کہ زبان محض زبان نہیں ہوتی بلکہ تہذیب کا بیان ہوتی ہے۔ )
اب سوال یہ ہے کہ اردو کا رسم الخط بدلنا اگر مقصود ہے تو کیا آپ اردو کو عربی اور فارسی کے اثر سے پاک کرسکتے ہیں؟ اور اگر ایسا کرسکتے ہیں تو نئے الفاظ آپ کن زبانوں سے لیں گے؟ مقامی زبانوں سے، پنجابی سندھی ، وہ ہمارے ہاں کس رسم الخط میں لکھی جا رہی ہیں۔ اور بالفرض آپ ایسا کرلیں تو جو ’’نئی‘‘ زبان بنے گی کیا وہ اردو ہی ہوگی؟ رسم الخط بدلنے سے آپ الفاظ کی بنیاد، مثلاً حُسن اور حسین ، صرف اور مصرف کی نسبت کو کیسے سمجھا پائیں گے۔ رسم الخط بدلنے سے یہ مقامی زبانوں سے مزید دور ہوگی یا قریب۔ اور جس زبان سے قریب کرنا مقصود ہے اس کے قریب ہوکر مزید کھانہ کھراب ہی ہوگا اردو کا، صحیح کچھ نہیں ہوگا۔ مجھ احمق کو بھی اتنا اندازہ ہے کہ محض رسم الخط بدلنے سے کیا ہوسکتا ہے، جن لفظوں کو آپ لپیٹ لپیٹ کر لکھتے ہیں، سوچ سوچ کر ، یا جملوں کی ساخت میں کتنی اور کیسی تبدیلی آسکتی ہے۔ اور پھر کہا جائے کہ فرق نہیں پڑے گا۔۔۔
اور پھر اگر رسم الخط بدلنا ہی ہے اور اس سے شناخت کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا بقول آپ کے، تو کیوں نہ چینی رسم الخط اختیار کیا جائے، کچھ بھلا چینی بھائیوں کا ہو کچھ ہمارا۔ صرف دوسرے ایک ہی رسم الخط پر بحث کیوں ہے۔
یہاں بات کا آغاز ایک فیصلے سے کیا گیا ہے، ڈری ہوئی زبان۔ بات کا اختتام یہ کہ یہ ایک بے فائدہ بحث ہے۔ اگر کسی کو اس زبان پر مہربانی کرنی ہی ہے تو لسانیات پر کوئی کام کرلے، بے شمار لفظ ہیں جن کے متبادل اردو میں مجھ جیسے لوگوں کو نہیں ملتے victimاور prey کے لیے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے، collector کے لیے کوئی جامع لفظ نہیں ملتا survivor کا اردو متبادل ، وہ جو معانی کو پوری طرح بیان کرسکے نہیں ملتا۔ یہ نہیں کہ زبان کا دامن وسیع نہیں، زبان تو اتنی وسعت رکھتی ہے کہ سب نئی نہروں ندیوں کو خود میں شامل کرسکتی ہے ، بات یہ ہے کہ ہمیں بے فائدہ بحثوں کے لیے تو وقت ملتا ہے ، کام کرنے کا نہیں۔
اور پھر بھی تبدیلی پر اصرار ہے تو لائیے کوئی اتاترک جو صرف رسم الخط ہی نہ بدلے، قوم کی تقدیر بھی بدلے، تو بسروچشم