Thursday, December 19, 2019

تنہائی


اللہ تنہائی کے شر سے بچائے اور تنہائی کے عذاب سے بھی۔
اور اللہ تنہائی کے فضل سے نوازے

Tuesday, July 16, 2019

کندھا

نیکی، دل کی نرمی، دوسروں کا بھلا چاہنا، غیروں کا بھی اور ان رشتوں کا بھی جو اوکھے اور تیکھے ہوتے ہیں، بھلا چاہنا، اپنی ذات سے اوپر ہو کر سوچنا اللہ کی توفیق خاص اور مقام شکر۔
وہ توڑنے والوں نہیں جوڑنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
عجیب وہ جو اسی رب کا نام لیتے اور پھر سورہ الفلق اور الناس کی تفسیر بن کر توڑتے ہیں۔
پکے مومن ہونے کا غرور جو ان کے ایمان اور دوسروں کے رشتے کھا جاتا ہے۔
وہ کندھا جھٹکنے نہیں کندھا دینے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اور کندھا سب کو چاہیے ہوتا  ہے،
زندگی کی کسی نہ کسی مرحلے پر، یا پھر زندگی سے گزر کر آگےجانے والوں کو بھی، پیچھے رہ جانے والوں کو بھی ،بوجھ ہلکا کرنے کی خاطر. جتائے بغیر، توڑے بغیر۔ معوذتین کی تفسیر بنے بغیر، کندھا دینا بھی صدقہ ہے۔

Saturday, July 13, 2019

’’لوگ کیا کہیں گے‘‘


پچھلی نسل کا المیہ یہ تھا کہ وہ سوچتی تھی کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ اور اس نسل کا المیہ یہ ہے کہ یہ کسی بات میں بھی اپنی ذات سے آگے نہیں سوچتی ، یہ نہیں سوچتی کہ ’’دوسرے کیا سوچیں گے‘‘۔۔۔ چاہے وہ دوسرے قریبی رشتے ہی ہوں

پہچان

انسان کی پہچان ، یہ پہچان کہ اس نے آپ کو کوئی قابل استعمال شے سمجھا یا انسان ، تب ہوتی ہے جب اس کی غرض اس کی ضرورت پوری ہوچکی ہو، جب اسے مزید آپ سے کوئی غرض نہیں رہتی، تب اس کی لاتعلقی اور بے حسی کمال ہوتی ہے۔

ایک پرانی تحریر

خزاں یاس نہیں، آس کا موسم ہے، زندگی کے نہ ختم ہونے والے تسلسل کی علامت۔ پو شش برگ و گُل بدلتی ہے، گِل بدلتی ہے، اور وہ جسے اسے گِل سے تخلیق کیا گیا ہے، اُسے اس کی تخلیق یاد دلائی جاتی ہے، یاد دلایا جاتا ہے کہ جب تک زندگی ہے زندہ رہنا ہے۔ کسی نہ کسی روپ میں، کسی نہ کسی رنگ میں اس تسلسل کا ، اس گردشِ پیہم کا حصہ بنے رہنا ہے، یہی مقدر ہے، یہی مشیت، یہی حکم الٰہی۔۔۔ یہاں کسی کو قیام کی اجازت نہیں، کسی کو ثبات نہیں، وقت کی بہتی رو سب بہائے چلی جاتی ہے اور اس کے دھارے کے ساتھ بہتے رہنا مقدر ہے، بڑھتے رہنا نصیب ہے۔ گرتی شاخیں، اڑتے پتے، انجام کار اسی گِل کا حصہ بنتے ہیں، آنے والے موسموں میں جس سے پھر سبزہ پھوٹتا ہے، بہتے پانی منجمد کر دئیے جاتے ہیں مگر ان کی گہرائیوں میں زندگی پھر بھی رواں رکھی جاتی ہے،زمینوں اور زمانوں پر پھیلی اسی گردشِ پیہم کا حصہ بادل جو سمندروں کے بیٹے ہیں پہاڑوں پر جن کا گھر ہے، پیڑوں کی سوکھتی، چٹختی ٹہنیاں موسم بدلنے پر پھر سے لچکیلی ہو جاتی ہیں، انار کے پیڑ کی طرح، شب بھر میں جس کی سوکھی شاخوں میں لچک آتی ہے اور ایک صبح کی دھوپ میں وہی زندگی اور ہر لچک سے محروم شاخیں انار رنگ کونپلوں سے ڈھک جاتی ہیں۔اور وہ شاخیں جن پر پھول نہیں کھلتے، جن کے رنگ نہیں بدلتے، پرندے ان پر بھی بسیرا لیتے ہیں، ان کی کھوہ بھی کسی گلہری کا آشیانہ ہوتی ہے۔ زندگی درد ہے، کرب ہے، کرب کا قافلہ نہیں رکتا۔ ایسا اذن کسی کو نہیں، حکم نہیں۔ سفر جاری رہتا ہے۔۔۔ اور وہ جو اصل خالق ہے، وہ موت سے ​​زندگی اور زندگی سے موت پیدا کرتا ہے۔ صرف اسی کو دوام، قیام، اس گردشِ پیہم سے فرار حاصل ہے۔ ہاں مگر کچھ اور ہیں جنہیں اس گردش کا حصہ رکھتے ہوئے بھی دوام بخش دیا جاتا ہے۔۔۔
۔۔
لیکن میں یہاں پھر آؤں گا
بچوں کے دہن سے بولوں گا
چڑیوں کی زباں سے گاؤں گا
جب بیج ہنسیں گے دھرتی میں
اور کونپل اپنی انگلی سے
مٹی کی تہوں کو چھیڑے گی
میں پتی پتی کلی کلی ، اپنی آنکھیں پھر کھولوں گا
سرسبز ہتھیلی پر لے کر، شبنم کے قطرے تولوں گا
جاڑوں کی ہوائیں دامن میں
جب فصل خزاں کو لائیں گی
رہرو کے جواں قدموں کے تلے
سوکھے ہوئے پتوں سے میرے
ہنسنے کی صدائیں آئیں گی
دھرتی کی سنہری سب ندیاں
آکاش کی نیلی سب جھیلیں
ہستی سے میری بھر جائیں گی
میں ایک گریزاں لمحہ ہوں
ایام کے افسوں خانے میں
میں ایک تڑپتا قطرہ ہوں
مصروفِ سفر جو رہتا ہے
ماضی کی صراحی کے دل سے
مستقبل کے پیمانے میں
میں سوتا ہوں اور جاگتا ہوں
صدیوں کا پرانا کھیل ہوں میں
میں مر کر امر ہو جاؤں گا
میں یہاں پھر آؤں گا