Friday, September 26, 2014

راہ دکھانے والے۔۔۔سر کے نام

تو چلیے اس گمبھیر خاموشی میں ہمیشہ کی طرح خودکلامی کی جائے، دیوار سے بات کی جائے، یہ دیوار جس پر اب ان کے لفظوں کی کرنیں نہیں اترتی ہیں، وہی تھے جن سے میں نے دوسرے انسانوں سے رشتوں کے سابقوں لاحقوں کے بغیر بات کرنا سیکھی اور جانا کہ انسان کی سطح پر بھی بات کی جا سکتی ہے، ایک ایسے شخص جن کے لیے میں "شر" کی علامت تھی نہ ہی نئی دنیا کے نئے معیار پر محض خوش طبعی کا استعارہ۔ آپ جو ایک انسان، ایک روح کی سطح پر میری بات سنتے رہے، جواب دیتے رہے، دلاسا دیتے رہے، اگرچہ کہتے تھے کہ میرا ہاتھ تمہارے سر پر ہے، سدا تمہارے سر پر رہے گا۔ وہ جنہیں میں اپنا مرشد ، "سر" کہتی تھی، اور جسے وہ میرے الجھے سلجھے سوالوں پر لکھتے تھے، "تمہارا سر"۔ میرے دماغ کو روشنی، میری روح کو اڑان دینے کا شکریہ۔ آپ کی یاد آنکھ کا آنسو نہیں چہرے کی مسکراہٹ ہے۔
اور مبارک ہوتی ہے وہ مسکراہٹ جو بلاسبب چہرے پر آئے، یہ مسکراہٹ آپ کے نام۔

Wednesday, September 24, 2014

اے خزاں کی ہوا

اور خزاں کی ہوا چل پڑی جس کے چلنے سے سینے میں ایک ساتھ کئی پرندے پھڑپھڑانے لگتے ہیں، آزاد ہونے کو بے تاب۔۔۔ یہی وہ دن ہیں جب پرندے نقل مکانی کرتے ہیں، یہی وہ دن ہیں جب میں گھر کے صحن  اور کمروں میں چلتی ہوں، اتنا کہ پیروں تلے زمین گھسنے لگے، مگر روایتوں اور ریتوں نے اتنا مجبور کر دیا ہے کہ آپ اس ہوا میں اڑان نہیں بھر سکتے، آپ زمین سے جڑے ہیں، زنجیر سے جڑے ہیں۔ اڑان بھری جا سکتی ہے نہ رنگ ہی بھرنے آتے ہیں۔ برف زاروں پر جب دھوپ پڑتی ہے تو وہ کیسی دکھائی دیتی ہے، مجھے نہیں معلوم۔ مجھے پہاڑ نہیں صحرا بلاتے ہیں، جہاں نگاہ بلا روک ٹوک ایک سے دوسرے کنارے تک پہنچ جاتے ہوں، پلک جھپکنے میں۔ صحرا کا آسمان کیسا ہوتا ہے راتوں کو میں نے نہیں دیکھا۔ گندم یا سرسوں کے کھیت پر طلوع ہوتا سورج مجھے نہیں دکھایا گیا۔ جنگلوں میں اترتی شاموں کا مجھے نہیں معلوم۔ میں نے دھوپ کے بدلتے رنگ اور سایوں کے روپ نہیں دیکھے۔ سبزے کو سر اٹھاتے اور پھر پہاڑوں کو مٹیالا سرمئی رنگ دھارتے نہیں دیکھا۔ پھروں کی بدلتی شباہتوں، مٹی کے رنگوں اور خاصیتوں کی خبر مجھے نہیں دی گئی۔ میں نے پرندوں کی ڈاروں کو درختوں پر بسیرا لیتے دیکھا نہ کسی اجاڑ علاقے میں ابلتے چشمےکی صدا سنی۔ کسی جھیل پر سایہ فگن پھول نہیں دیکھے۔ میں نے ماضی کے کھنڈروں میں سفر بھی نہیں کیا، میں ان میں گزرے زمانوں کی آہٹیں کیسے سنتی۔ مجھے ساز دیا گیا مگر میری نوا کا دم گھونٹ دیا گیا۔ کیسے کیسے گیت ہیں جو میں نہیں سن پائی، کیسی کیسی کتابیں ہیں جو میں ابھی پڑھ نہیں پائی۔ کیسے کیسے رنگ ہیں جو بھر نہہیں پائی۔ اربوں انسانوں میں سے کتنے ہیں جنہیں میں جان پائی جو مجھے نہ جان پائے۔میلوں پھیلے فاصلوں میں میرے حصۓ میں طے کرنے کو چند گز ہی آئے۔ اتنا سب کچھ نہ دیا مگر یہ سینے میں پروں کی پھڑپھڑاہٹ دے دی،واہ میرے مولا۔ ہاں اور کچھ لفظ دے دئیے اور ایک تخیل جو اڑان بھرتا ہے تو زمانوں کی اور زمینوں کی سیر کر آتا ہے۔یہ بھی ہر کسی کو تو دیا نہیں گیا۔

Monday, September 1, 2014

آزادی

آزادی خود اپنے پیروں میں بیڑیاں ڈالنے کا نام ہے...