Friday, September 26, 2014

راہ دکھانے والے۔۔۔سر کے نام

تو چلیے اس گمبھیر خاموشی میں ہمیشہ کی طرح خودکلامی کی جائے، دیوار سے بات کی جائے، یہ دیوار جس پر اب ان کے لفظوں کی کرنیں نہیں اترتی ہیں، وہی تھے جن سے میں نے دوسرے انسانوں سے رشتوں کے سابقوں لاحقوں کے بغیر بات کرنا سیکھی اور جانا کہ انسان کی سطح پر بھی بات کی جا سکتی ہے، ایک ایسے شخص جن کے لیے میں "شر" کی علامت تھی نہ ہی نئی دنیا کے نئے معیار پر محض خوش طبعی کا استعارہ۔ آپ جو ایک انسان، ایک روح کی سطح پر میری بات سنتے رہے، جواب دیتے رہے، دلاسا دیتے رہے، اگرچہ کہتے تھے کہ میرا ہاتھ تمہارے سر پر ہے، سدا تمہارے سر پر رہے گا۔ وہ جنہیں میں اپنا مرشد ، "سر" کہتی تھی، اور جسے وہ میرے الجھے سلجھے سوالوں پر لکھتے تھے، "تمہارا سر"۔ میرے دماغ کو روشنی، میری روح کو اڑان دینے کا شکریہ۔ آپ کی یاد آنکھ کا آنسو نہیں چہرے کی مسکراہٹ ہے۔
اور مبارک ہوتی ہے وہ مسکراہٹ جو بلاسبب چہرے پر آئے، یہ مسکراہٹ آپ کے نام۔

No comments:

Post a Comment