Monday, July 18, 2022

زندگی

 زندہ لوگوں میں زندگی نظر آنی چاہیے، آنکھ کے آنسو کی صورت سہی، ہونٹوں کی ہنسی کی صورت سہی، ماتھے کی شکن کی صورت سہی، زندہ لوگوں میں زندگی نظر آنی چاہیے۔۔۔

Friday, July 8, 2022

احمد جاوید صاحب کی ایک گفتگو بلکہ تنقید۔۔۔۔

کچھ مشکل باتیں، سوشل میڈیا کے بارے ، سوشل میڈیا پر ہی۔۔۔
احمد جاوید صاحب کی ایک گفتگو بلکہ تنقید۔۔۔۔
"وہم کہ آج کا عام آدمی اتنا جانتا ہے کہ جو پچھلے دور کا عالم نہیں جانتا تھا مگر اس جاننے کی تفصیل پوچھی جائے تومعلوم ہو کہ جاننے کا وہم تو ہے مگر جاننے کا نتیجہ اسے نصیب نہیں ہوا۔۔۔"
یہ وہم کیوں ۔۔ کیوں کہ رسائی بڑھ گئی ہے۔۔ مگر جذب کے لیے درکار وقت ہم صرف کرنا نہیں چاہتے۔۔۔ کسی نے لکھا تھا، "انسان تین چیزوں سے خائف رہتا ہے: موت، دوسرے لوگ، اور خود اس کا اپنا ذہن۔۔۔ "
اپنا ذہن to which I have to forever throw scraps to feed on, or it would devour me the moment it isn't chewing on something else... and those scraps give me the illusion of knowledge :)
علم کا وہم، علمی روایات سے بے تعلقی، اور اس وہم اور بے تعلقی کے باوجود علم کا غرور، ادب و مروت و اخلاق سے بداخلاقی، بے مروتی اور احساس سے بے حسی کی جانب سفر،بدلحاظی اور بدلحاظی کو جرات اور حق گوئی سمجھنے کا گمان، ہر کسی پر شک اور بدگمانی، دوسروں کی انفرادیت کو تسلیم کرنے سے انکار، برداشت و تحمل کی کمی، انسان کو انسان نہ سمجھنا (خامیوں اور خوبیوں کا مجموعہ انسان، ہمارے ایک استاد محترم کا کہنا ہے کہ غلطی کرنا انسان کا حق ہے، غلطی کا شعور ذمہ داری، اور یہ ایسا آزاد کر دینے والا خیال ہے)، اختلاف کو دشمنی بنا لینے کا رحجان، ’’میں‘‘ اور بس ’’میں ‘‘ کا پہاڑہ، شہرت پسندی، اور پھر محبتوں اور عقیدتوں میں مبالغہ آمیزی جن سے عقیدت ہے انہیں خدا سمجھ لینے کا رحجان اور پھر کسی روز انہی خدائوں کو ہم لوگ ہی سر سے اٹھا کر زمین پر پٹخ بھی دیتے ہیں،
اپنی پہچان کے بغیر اپنی انفرادیت کا اعلان (رزق روزی کے حصول کا ذریعہ آپ کی پہچان نہیں ہوتا، ہم میں سے کتنے اپنا تعارف بغیر اپنی تعریف کے اور بغیر اپنے پروفیشن اور ڈگری کے بیان کے کروا سکتے ہیں؟)، کھوکھلی شخصیتیں جن کا بیان سوا چیزوں سے پہچان اور سوائے ظاہر اور ظاہر کی کامیابی کے کچھ نہیں، بے جا اظہارِ ذات، اظہارِ ذات کی حد سے بڑھی خواہش بھی تکبر ہوتی ہے (یہی آج کے اس سوشل میڈیا کی تصویر ہے)۔

پھر غالب کہہ گئے کہ مے سے غرض ہے کس رُوسیاہ کو۔۔۔۔اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے۔۔۔ اک گونہ بے خودی، اڈکشن یا لت کی تعریف یہی ہے۔۔۔۔
something which numbs the pain..
something which traumatized people seek to numb their unresolved traumas and unrecognized pains, which toxic culture imposes on them.. and in result it's mindlessness that we seek and not mindfulness what we need...
we shy away from our authentic selves...
authentic self....
اپنی اصل، اپنی حقیقت کا شعور، اپنی پہچان۔۔۔ وہ خود شناسی جو خداشناسی میں ڈھلتی ہے۔۔۔
this shair talks about seeking and reclaiming that authenticity ..
دل ایسی چیز کو ٹھکرا دیا نخوت پسندوں نے
بہت مجبور ہو کر ہم نے آئینِ وفا بدلا
مشرق اور مغرب، احمد جاوید صاحب اور ڈاکٹر گیبر میٹے ایک نقطے پر آملے ہیں.

https://www.youtube.com/watch?v=Gku5_aL5f5o