Sunday, November 12, 2023

رزق

 

پچھلے دو ہفتے کے دوران میں نے چند ایک کو کسی ایک ہی شخص سے کچھ ایسا کہتے سنا ہے کہ اللہ تو خوش باش صورتوں والوں کو ہی کھلا رزق دیتا ہے۔ غم زدہ دوسرے لفظوں میں Grieving لوگوں کا رزق ان کی روتی دھوتی صورت کی وجہ سے کم ہو جاتا ہے یا روک لیا جاتا ہے۔

ان لفظوں کی درپردہ سختی ایک طرف۔۔ مگر سوال اٹھا ذہن میں کہ کیا واقعی ایسا ہے؟؟ اور آج سوچتے سوچتے یہ آیاتِ قرآنی ذہن میں آئیں۔۔ (یہ بھی رزق کی ایک صورت ہے، نگاہ کے لیے حسن نظارہ، کان کے لیے حسن سماعت، دماغ کے لیے حسن خیال ، پیروں کے لیے خیر کی راہ، ہاتھ کے لیے خیر کا کام، زبان کے لیے دوسروں سے دیکھ بھال کر بات کرنا اور حسن کلام، سب پاک رزق ہے) تو یہ بھی سوچا کہ اس ’’رزق‘‘ میں دوسروں کو شریک کیا جائے۔
الله يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر
الله يبسط الرزق لمن يشاء من عباده ويقدر له
اللہ شکلیں دیکھ کر رزق نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور جس کے لیے چاہے تنگ کر دے۔۔۔۔ جب چاہے تنگی کو فراخی میں بدل دے۔۔۔
رزق کی فراخی ، بخشے جانے کی، اللہ کے پسندیدہ ہونے کی نشانی بھی نہیں ہے۔۔۔
اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ۔۔۔
فتنہ یعنی امتحان۔۔ یہاں ہر چیز امتحان ہی ہے۔۔ تنگی بھی فراخی بھی۔۔۔
ہاں ضرور، شکر کرنے والوں کو وہ اور نوازتا ہے۔ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ ۔۔۔ مگر کسی کی کیفیت کی خبر خود اس کو ہو سکتی ہے یا اللہ کو۔ کوئی انسان کسی کے اندر کی کیفیت کو یقین سے کیسے جان سکتا ہے؟ رنج زدہ دل ایک ہی وقت میں رنج اور شکر کرسکتا ہے۔ محروم دعا دے سکتا ہے دوسروں کو اور شاکر بھی ہو سکتا ہے، یہ ممکن ہے۔ اور جس بھی حال میں اللہ یاد رہے، وہی فضل ہے وہی رحمت ہے، چاہے وہ کوئی تنگی ہو یا فراخی۔۔۔
اور مبارک ہیں وہ جو دوسروں کے دلوں کو ٹھیس نہ پہنچانے کی خاطر بہت دیکھ بھال کر بولتے ہیں۔۔ مبارک ہیں وہ جو ایسی کسی کوتاہی کا شعور ہونے پر اپنی غلطی سے رجوع کرتے ہیں۔
اور مبارک ہیں وہ جو دوسروں کو ان کی تنگی کے وقت میں ان کی اچھائی کی یاد دلاتے ہیں، ان کی اصل کی طرف واپس لوٹنے کی راہ دکھاتے ہیں، بجائے judge کرنے کے، بجائے انگلی اٹھانے کے، بجائے خود اپنی شکرگزاریوں کا اعلان کرنے کے۔
اللہ تعالیٰ بھی یہی کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کو یاد دلا دیا کرو۔
تو یاد رہے کہ تنگی کا یہی وقت فراخی بھی ہے، یاد دہانی بھی ہے کہ آج کا وقت گزر جائے گا اور کل کو آپ کی جگہ کوئی اور ہو تو آپ اس کے لیے کاندھا بنیں گے، دلاسا بنیں گے، ڈھارس بنیں گے۔ اپنی شکرگزاری اور اس کی ناشکری کا اعلان نہیں بنیں گے۔ رحمتوں کی امید کا اعلان بنیں گے۔
مبارک ہیں وہ جو سنت اللہ اور سنت الرسول کے مطابق ۔۔۔ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى۔۔ کی تفسیر بنتے ہیں، انسانوں کو چیزوں کی طرح استعمال کے بعد ، ہاتھ تھامنے کے بعد چھوڑتے نہیں ہیں۔
اور وہ جن کی آنکھیں نم ہیں اللہ انہیں وہ آنسو دے جو گلے شکوے کے نہ ہوں ۔ رحم کے ہوں نرمی کے ہوں ، خوف کے نہ ہوں شوق کے ہوں، اللہ کی یاد کے ہوں، آمین
ہم سب محتاج ہیں، اللہ کے حضور فقیر ہیں، اللہ ہمیں ہماری محتاجی کا شعور دئیے رکھے، ہم سب کو محتاجوں کی محتاجی سے بچائے، آمین

Saturday, November 11, 2023

مقامِ شکر

اور  یہ تو مقامِ شکر ہے کہ آپ کسی انسان سے کوئی امید رکھیں ، وہ اس امید کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی توڑ دے۔۔
الحمدللہ

Monday, July 31, 2023

شکر و عاجزی کا غرور

 

ایک غرور عاجزی کا اور شکرگزاری کا بھی ہوتا ہے، ادھر کسی نے اپنے کسی کمزور لمحے میں اپنی کسی مشکل کا ذکر کیا نہیں ، اور ہم نے کہا، بھئی ہمیں تو اللہ نے بہت نوازا ہے ہم تو شکر گزار ہیں اس کے۔
شکر گزاری تو پتا نہیں اسے پتھر دلی ضرور کہا جاتا ہے۔

Thursday, March 30, 2023

۔۔۔ہرا بھرا گھر تھا۔۔

 ​​​"صبح دم جو دیکھا تھا، کیا ہرا بھرا گھر تھا

ڈانٹتی ہوئی بیوی، بھاگتے ہوئے بچے

رسیوں کی بانہوں میں، جھولتے ہوئے کپڑے

اک طرف کو گڑیا کا ادھ بنا گھروندا تھا

دور ایک کونے میں سائیکل کا پہیہ تھا"

سائکلیں تھیں بھائیوں کی، (وہ سرخ سائیکل بھی جس کے چلتے پہیے میں میرا پیر آیا تھا اور ابو سے میرے بھائی کو رہ رہ کر ڈانٹ پڑی تھی)

مرغیوں کے ڈربے تھے

کابکیں تھیں پنجرہ تھا

سیزر جو ہماری آمد سے پہلے دنیا سے گزر گیا مگر ابا کا لیجنڈری پالتو جس کے فلموں میں کام کرنے ، زخمی ہیرو کو تانگے پر لے جانے،  تمیز تہذیب کے قصے بعد میں پیدا ہونے والوں تک کو  سنائے جاتے رہے، کہ تہاڈے توں بوہتی عقل تے سیزر نوں سی۔۔۔ پھر جمی، ڈیزی۔۔۔

انگور کی بیلیں تھیں، جامن امرود انار شہتوت کے پیڑ تھے

سبزیوں کی کیاریاں تھیں، پودینہ اور لیموں جو محلے بھر میں بانٹے جاتے تھے

گلاب کی جھاڑیاں اور موتیا، جو ہر صبح جمع کرکے ابا رومال میں رکھتے، واحد سنگھار جو میں نے امی کو کرتے دیکھا ، بالیوں میں موتیا کے پھول۔۔۔ اور جو ابا ہر آنے والے مہمان کو بطور تحفہ دیتے، موتیا کے پھول۔۔۔

صحن جہاں کنک (گندم) چھان پھٹک دھو کر پھیلائی جاتی اور پرندوں اور ہمارے کھیل کا سامان ہوتی۔ 

سہ پہر کو پڑوس کے بچے اسی صحن میں ادھم مچاتے، لڑتے اور لڑائیوں کو اپنے اماں ابا سے چھپاتے ۔

شام کو اسی صحن میں چارپائیاں بچھتیں اور بجلی جانے پر ابا امی کوئی تاریخ سے قصے یا حالات حاضرہ ۔۔۔ یا پھر بڑے بھائی خوب ڈرائونی سی کہانیاں سنایا کرتے۔۔۔

کھلا سا صحن جو الیکشنوں کے دنوں میں کارنر میٹنگوں کے لیے اور محلے کی کسی بھی بیٹی کی شادی کے لیے ابا پیش کر دیا کرتے تھے۔ زکوۃ کمیٹی کے لیے بھی، جہاں اسی صحن میں بیٹھی کتنی خالہ جی ماسی جی اماں جی کے لیے ہمیں ہدایت ملتی تھی کہ سنو مدعا اور لکھو درخواست، بخدمت جناب چئیرمین زکوۃ کمیٹی۔۔۔

بڑی عید پر مسجد کمیٹی  کی مشترکہ قربانی بھی اسی صحن میں ہوتی ، انفرادی یا مشترکہ ان جانوروں کی خدمت بھی ابا کے ذمہ، تکبیر ہمیشہ ابا پڑھتے اور امی باقیوں کو شرم دلاتیں، انور صاحب نے لے جانا اے سارا ثواب تے تسی ساریاں نے پل صراط تے گائے بیل دی پوچھل پھڑدے رہ جانا اے۔

ماسی جس کی صفائی پر میری بہن یا میں کبھی سکول سے آکر کہتے، آج ماسی مٹی بھرے پوچے لگا کر گئی ہے فرشوں پر تو امی کا جواب ملتا، گھر تہاڈا اے، ماسی دا نئیں۔ ایسے یاد رہے ہیں یہ بالواسطہ تربیت بھرے جواب کہ کچھ بھی کر لوں ، آج تک کمی کجی اپنے عمل میں ہی نظر آتی ہے کہ پہلے اپنا گھر آپ صاف کرنا اے۔۔۔

Thursday, March 9, 2023

اظہار کا سفر

 اظہار کا یہ سفر عاجزی اور التجا کا سفر ہے ۔۔۔۔۔ آنے والے لفظ، اترنے والے خیال اور طاری ہونے والی کیفیت پر کسی کا کوئ اختیار نہیں کہ وہ جب اور جیسا چاہے انھیں اپنے دائرہ_اظہار میں لے آئے۔ یہ سب توفیق کی کرشمہ سازی ہے ۔۔۔ ایک ہی بات۔۔۔۔۔ ایک ہی ماحول اور ایک ہی منظر یا فضا کو توفیق_بیان یکسر بدل دیتی ہے ۔۔۔۔ تو معاملہ جب توفیق کا ہو تو کیسا اختلاف؟ یہ عاجزی و التجا کا سفر ہے ۔۔۔۔ عاجزی و التجا کا سفر ۔۔۔

عزم بہزاد

Friday, February 24, 2023

سلام ان پر۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایسے لوگ داخل ہوں گے جن کے دل چڑیوں کی طرح ہوں گے۔

 اور ان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بے شمار اور لگاتار درود و سلام جو اس بچے کے پاس اس کی دلجوئی کی خاطر دن بھر بیٹھ رہے تھے جس کی پالتو چڑیا مر گئی تھی، وہ جو کسی یتیم کے سامنے اپنی اولاد کو محبت سے پکارنے سے منع فرماتے تھے، درود و سلام ان پر جنہیں ہر کسی کے دل کی سلامتی کا اس قدر خیال تھا، درود و سلام ان پر کہ جنہوں نے ممتاز ترین ہو کر بھی ہر امتیاز کو رد کیا، جنہوں نے وجہ وجود کائنات ہو کر بھی عام رہنا پسند کیا کہ ہم سے عامی ان سے نسبت رکھ سکیں، جنہوں نے رعب نبوت سے کانپنے والے بدو سے فرمایا تھا، مت ڈرو کہ میں اس غریب ماں کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت پکا کر کھاتی تھیں۔ درود وسلام ان پر، مدینہ میں ایک دیوانی بڑھیا جن کا ہاتھ تھام کر دیر تک ان کے کان میں اپنی دیوانگی بھری باتیں کرتی رہتی اور آپ مسکراتے رہتے، سنتے ہی رہتے۔ ایک روز حضرت عمر نے اس عورت کا ہاتھ جھٹک کر پرے کیا اور کہا یا رسول اللہ یہ تو پاگل ہے، اس کی تو شہر بھر میں کوئی بھی نہیں سنتا۔ آپ نے فرمایا کوئی بھی نہیں سنتا تو کیا میں بھی نہ سنوں۔ سلام ان پر کہ جنہوں نے طائف میں رب ذوالجلال کو رب مستضعفین کہہ کر پکارا۔ کمزوروں کا رب، بے نوائوں کا رب، تنہا رہ جانے والوں کا رب ۔ درود و سلام ان پر ، میرے ماں باپ قربان ان پر کہ جنہوں نے انصار سے فرمایا کہ کیا تمہیں قبول نہیں کہ مکہ والے سارا مال غنیمت اونٹ بکریاں لے جائیں اور تم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو۔

 آواز سی آئی میرے قدموں پہ قدم رکھ۔۔۔

 آواز سی آئی میرے قدموں پہ قدم رکھ۔۔۔

جب تک یاد زندہ ہے،ساتھ زندہ ہے۔
دل و وجود کا کوئی حصہ جانے والوں کے ساتھ چلا جاتا ہے تو وہیں جانے والوں کا کوئی حصہ ہمارے ساتھ زندہ رہتا ہے۔
جب ساری دنیا ہی جھٹلاتی نظر آئے، دیکھ کر اَن دیکھا کرتی نظر آئے، نفی کرتی نظر آئے، جب خود سے ہی اپنا ہی اعتبار اٹھتا محسوس ہوتا ہو ، تو یہ انہی کے وسیلے ملا زندہ یقین ہے جو ڈھارس دیتا ہے،قدموں کو راہ اور آرزو کو فلاح کی دعا دیتا ہے۔
یاد دلاتا ہے You are an infinite player
عکس: ایک خط الطاف فاطمہ آپا کا
اور ایک ای میل سر عزم بہزاد کی






Thursday, January 19, 2023

ہندسے اور لفظ

اعداد و شمار، نمبرز اور فگرز، نتیجہ ہوتے ہیں، مقصد نہیں۔ مقصد الفاظ کی صورت بیان ہوتا ہے، نتیجہ ہندسوں کی صورت۔۔۔۔۔
مگر ہم نے ہندسوں کو مقصد اور لفظوں کو حتمی نتیجہ سمجھ لیا ہے۔