Friday, March 19, 2021

مہمانوں سے مہمان سرا کچھ کہتی ہے


پچھلے برس یہی دن تھے، یا ہفتے بھر بعد یہی دن آنے کو تھے، کہ یہ سارا ہجوم انسانوں کا کچھ ہفتے کو منظر سے ہٹ گیا تھا، اور فطرت نے کھل کر سانس لی تھی۔۔۔ وہی سڑکیں جہاں تیزرفتار ٹریفک میں کئی بار بلیوں اور پرندوں کے لاشے بے طرح کچلے جاتے ہیں، وہ سڑکیں خالی تھیں اور ان پر پرندوں کی ڈاریں آزادی سے اترتی تھیں۔ گرد اور دھویں میں اٹا مٹیالا سا آسمان ایک نیلگوں وسعت میں ڈھل گیا تھا جو نگاہ کو عجب سکون دیتی تھی۔ سڑک کنارے درختوں کے جھنڈ جن کے پتے ہمہ وقت گرد دھول میں اٹے رہتے تھے، دھلے دھلائے خوشی سے دمکتے تھے۔ مہمانوں سے مہمان سرا کچھ کہتی تھی، کہتی ہے۔۔۔ اور مہمان ایسی افراتفری میں ایسی بھاگم دوڑ میں ہیں کہ پل بھر کی فرصت نہیں۔ پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ ساری مصروفیتیں پل بھر میں بے معانی ہوجاتی ہیں، فنا ہو جاتی ہیں۔ ایک ندا آتی ہے اور اَن چاہے سہی یا دل سے، سب سامان یہیں چھوڑ چھاڑ جانا ہوتا ہے، حاضر سائیں!

البتہ کہانی یہ اس مہمان سرا کی خالی سڑکوں اور اس کے کناروں سر اٹھائے کھڑے ان درختوں کی ہے جو کالج یونیورسٹی اور کام وام کے سب دنوں کے ساتھی ہیں، اتنے کہ اب تو نہر کنارے اگے ان درختوں کی ایک جھلک سی بھی اس علاقے کی پہچان کروا دیتی ہے۔ کہاں کہاں آموں کے جھنڈ ہیں، جو فروری کے جاتے جاتے سونے جیسے بُور سے لد جاتے ہیں جیسے گہنے پہن لیے ہوں۔ کدھر جامن کی قطاریں ہیں، کہیں وہ بید مجنوں جو گرمیوں کی لو میں کسی مجنون کی طرح بال بکھرائے جھومتے ہیں، سنبل کہ سرخ پھولوں سے لدے یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے کوئی سرخ سرخ ہتھیلیاں پھیلائے دعاگو ہو، ڈھاک تلے بچھے سرخ قالین، گُل مہرکے نازک پتے اور پھول، وہ گولہڑ کا حیران کرنے والا درخت، کئی فٹ کے دائرے میں پھیلے ہوا میں بارش کی دُھن بجاتے رین ٹری، ارغوانی پھولوں سے لدے کچنار، شیشم، اشوک، ارجن، نیم کے ننھے سفید پھول، دھریک کا کاسنی غبار اور اس کی خوشبو، تالیاں پیٹتے پیپل، سراٹھائے سفیدے ۔۔۔ اپریل کے بعد سے جون جولائی تک بنفشی رنگ کے پھولوں سے لدے ہوئے پیڑ جن کا نام مجھے اب معلوم ہوا، جرول، کریپ مرٹل۔۔۔ اور کئی ایسے ساتھی جن کے ناموں سے میں واقف نہیں، اپریل سے جون تک سفید پھولوں سے لدے پیڑ جیسے کسی نے زمین پر بڑے بڑے گلدستے لگا دئیے ہوں۔۔۔ وہ جن کی شاخوں پر بہار آتے ہی گلابی پھول آجاتے ہیں اور پتا ایک نہیں ہوتا۔ املتاس جس کے نوخیز پتوں سے چھن کر آتی سہ پہر کی دھوپ کسی اور جہان کا پتہ بتاتی ہے، جس کی باریک تار سی صورت کی کلیاں ڈھلتی دھوپ میں جھلملاتی ہیں اور پھر یکایک ایک صبح وہ روشنی سے لد جاتا ہے۔ کہیں کہیں اپنی جٹائیں پھیلائے سادھو برگد۔ اکتوبر آتے ہی کئی سڑکوں پر پھیلتی ایک پُراسرار مہک، السٹونیا کی۔  پھر جنگلی گلاب کی بیلیں، بوگن ویلیا کے پھولوں کی برسات۔ مئی جون کے مہینوں میں مال پر زرد رین للی کی بہاریں۔ کیسا کتنا بھرپور حُسن ہے۔۔

ایک مٹی، ایک ہوا، ایک پانی، مگر ہر ایک کا رنگ جدا ہے، ہر پھل کی صورت اور ذائقہ جدا ہے۔ اور کوئی کسی سے مسابقت میں نہیں ہے، سب اپنے اپنے عالم میں سرنگوں محو ثنا ہیں جیسے۔ اپنے رنگ، اپنے ثمر، اپنی صورت پر راضی۔ خزاں آتی ہے تو خالق کی نگہبان نگاہوں میں سر جھکائے ہر سردوگرم برداشت کرتے، حکم کے، حرفِ کُن کے منتظر رہتے ہیں۔ وقت آتا ہے تو اس کی ثنا کرتے اس کی یاد دلاتے جاگ اٹھتے ہیں۔ اور کوئی وہ ہیں کہ جن پر عین خزاں کی رُت میں گلابی بہار اترتی ہے، بدھا کا درخت۔ یعنی ہر کسی کے لیے وقت کا دورانیہ مختلف ہے، اور یہ بھی کہ وہ چاہے تو خزاں میں بہار لے آئے۔کمال کا خاصا ظہور ہے، مجھے یہی لگتا ہے کہ انہیں بھی حکم ہوتا ہے کہ اب ظہور کا وقت ہے، کلام کا وقت ہے۔ نشانی بننے کا، پہچان سمجھانے کا سمے۔
ایک مٹی، ایک ہوا، ایک پانی، انسان بھی تو ایسے ہیں ہیں، محوسفر، کوئی کسی کی مسابقت میں نہیں، سب کا رنگ سب کا ثمر جدا ہے بس، سفر بھی، جدا اور تنہا، خالق کے حضور سب تن تنہا ہیں، میانِ نگاہ و دریچہ، اس واسطے میں کسی تماشائی کی گنجائش نہیں۔ جتنے راہی ہیں اتنی ہی راہیں ہیں، کوئی کسی کے خلاف نہیں۔ ہر سفر کی حالت اور نوعیت الگ ہے، سمت ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی تنہا ہے اور یہی سبب ہے کہ ہر لمحے ہر عالم میں نرمی اور محبت بانٹنے کی ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment