ایک پرانی ای میل مرشد کی۔۔۔سر عزم بہزاد کی
سر پر دھرے شفقت بھرے ہاتھوں میں سے ایک، میرے چراغوں میں سے ایک چراغ
15اکتوبر2008
اکّااااا !
تم بعض اوقات ضرورت سے زیادہ حساس ہوجاتی ہو، تمہاری یہ حساسیت تمہاری تعلیم اور حصولِ علم کی خواہش کی پیداکردہ ہے۔ یہ وہ حساسیت ہے جسے اکثروبیشتر تمہاری تنہائی بڑھا دیتی ہے۔
میں نے اپنی اب تک کی عمر میں بہت تعلق نبھائے، اتنے تعلقات کہ کوئی مجھے ’’تعلق دار’’ کوئی ’’شکارِ احباب‘‘ اور کوئی ’’ہمدرد دواخانہ‘‘ یا ’’حکیم سعید‘‘ کہا کرتا۔ میں یہ سب سنتا اور پھر اپنے گرد جمع ہجوم میں کھو جاتا۔ بہت دن بعد میرے اندر ایک احتساب نے جنم لیا جس کا تقاضا تھا کہ اپنے اطراف جمع بھیڑ کو غور سے دیکھو اور فیصلہ کرو کہ کتنے لوگ تم سے مخلص ہیں اور کتنے محض ’’خوش وقتی‘‘ کے لیے موجود ہیں؟
مجھے یہ جواب ملا کہ سب کے سب خوش وقتی کے لیے جمع ہیں اور اپنی اپنی اننگز کھیل کر بھاگ جائیں گے۔ میں جانے کس مٹی کا بنا ہوں کہ میں نے یہ سب جانتے ہوئے بھی نتیجہ وقت پر چھوڑا اور خوش وقتی کرنے والوں سے ’’خوش دلی‘‘ سے ملتا رہا۔ آخر وہ وقت آیا کہ سب ’’اسیرانِ خوش وقتی‘‘ ایک ایک کر کے منظر سے غائب ہونے لگے۔ اُن ہی دنوں ایک عجیب احساس میرے اندر پیدا ہوا (جو آج بھی پوری قوت سے موجود ہے) کہ مجھے نقصان کا صدمہ نہیں ہو پایا بلکہ بعض مقامات پر تو ایسا لگا کہ دل کا کوئی بوجھ ہلکا ہو گیا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ یہ احساس خاموشی سے میری شاعری کے اندر بھی در آیا اور جانے والوں کے میری غزلوں میں جا بجا اشعار نظر آنے لگے، مثلاً
عمر کے حیرت خانے میں اب یہ سوچتے رہتے ہیں
تم کو بھول گئے ہیں ہم یا جسم سے گرد اتاری ہے
یا
اب تو ملال بھی نہیں یعنی خیال بھی نہیں
کون کہاں بچھڑ گیا تیز ہوا کے شور میں
یا
شاخِ دل کی ہریالی خواب کا بیاں ٹھہری
میں نے جس کو نم رکھا وہ زمیں ہی بنجر تھی
تو اکّا ان باتوں پر ملول نہ ہوا کرو اور اگر ملال زیادہ ہو تو ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھ لیا کرو۔
میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔
اللہ حافظ
No comments:
Post a Comment