دنیا کے سب ہی گھر ، عالیشان ہوں یا یونہی سے، کرائے کے ہی تو ہوتے ہیں۔ ایک روز انہیں چھوڑ جانا ہوتا ہے، سوچیں تو انسان کا جسم بھی کرائے کا ہی گھر ہے۔ اقبال کہہ گئے، وجودِ حضرت انساں نہ روح ہے نہ بدن۔ وہ جو وجود ہے۔۔۔۔ انسان سب سے زیادہ اپنے ساتھ ہی رہتا ہے، اپنی سوچ اپنے خیال میں ہی بستا ہے، اور بھلے کوئی محل میں بستا ہو، کسی کسی کی سوچ اور خیال کا یہ گھر کس قدر تنگ اور اندھیرا ہوتا ہے۔ ان حسد بغض بھرے الجھے ہوئے شکایتوں شکووں بھرے تنگ و تاریک گھروں نے ہی کبھی ابدی گھروں میں بدل جانا ہے، اور توجہ ابدی گھروں کی تزئین و روشنی پر رہے تو یہ کرائے کے گھر بھی سج جاتے ہیں ۔ سمجھ یہی آتی ہے کہ آخرۃ میں حسنہ انہیں ہی ملے گی جنہیں دنیا میں۔ جو یہاں اندھے ہیں وہاں بھی اندھے ہی اٹھائے جائیں گے۔ اُس رب رحمت للعالمین سے دونوں جہان میں تنگی وتاریکی سے امان کی دعا ہے، نور وکشادگی کی دعا ہے، اپنے لیے سب کے لیے (آمین)
اور اس سارے قصے کو بزبانِ ترکی محض ایک جملے میں ادا کیا گیا:
ReplyDeleteمکان کی کشادگی، دل کی تنگی کا علاج نہیں ہوتی