Friday, April 24, 2015

خواب اندر خواب

یہ کون بتا سکتا ہے کہ ہم ابھی خواب میں ہیں یا خواب وہ ہے جو ہم نیند کے عالم میں دیکھتے ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا خواب اندر خواب ہے۔ ایسی کتنی ہی کہانیاں لکھنے والوں نے بُنیں کہ جن میں کردار جاگتے میں غائب تھے اور نیند کے عالم میں کسی اور جہان میں کوئی اور زندگی گزارتے تھے۔ خواب اور بیداری کی حقیقت کون بتا سکتا ہے۔ لیکن جیسی بیداری ہو خواب بھی ویسا ہوتا ہے، یہ البتہ ایک نظریاتی سا بیان ہے۔۔۔۔ خواب جنہیں کہانی کی صورت لکھا جائے تو اچھا خاصا Abstractافسانہ ہوں۔۔۔ میرے پیر چوں کہ زمین سے بندھے ہیں تو میرا تخیل مجھے جب بھی خواب دکھاتا ہے وہ بڑے واضح ہوتے ہیں اور ان کا تاثر اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ کئی کئی روز قائم رہتا ہے۔ مجھے خواب میں سیڑھیاں دکھائی دیتی ہیں اکثر، میں اکثر ان کے درمیان میں کہیں ہوتی ہوں، اور سیڑھیوں کا آغاز کہیں دکھائی دے رہا ہوتا ہے نہ انجام۔ سیڑھیاں چلتے چلتے کسی اور زمانے کسی اور وقت کسی اور جگہ کسی اور مکان میں بھی پہنچ جاتی ہیں۔ یا پھر بادل دکھائی دیتے ہیں، گہرے، کالے، پانی سے بھرے، برسنے کو تیار، لیکن وہ بادل ہمیشہ پانی بھرے نہیں ہوتے، کبھی کبھار وہ ستاروں کا جھرمٹ ہوتے ہیں جو قریب آنے پر پتا چلتا ہے کہ کانچ کے پرندوں کا غول تھا، اور پھر وہ غول کا غول موسلادھار بارش کی طرح برس گیا، کبھی بادلوں کے ساتھ سرخ آندھی اٹھتی ہے اور تیز ہوائوں کے ساتھ جب وہ برستے ہیں تو معلوم ہوا کہ وہ تو پتیاں تھیں گلابوں کی۔۔ڈھیروں۔۔۔ گلاب، حسنِ ازل کی نشانی؟؟؟ کبھی بلور کی طرح چمکتا شفاف پانی میرے گھر کے صحن میں جھیل بنا لیتا ہے۔۔۔اتنا شفاف کہ اس کی تہ میں پڑے پتھر مجھے دکھائی دیتے ہیں رنگ برنگے، انمول مگر بے مول۔۔۔  پانی اور روشنی سے جھلملاتے عکس۔۔۔۔ کسی دور دراز نامعلوم جگہ پر ایک بڑا سا گھر، جس کی شہ نشینوں پر پھولوں کے گملے ہیں، جس کے بڑے بڑے خاموش نیم تاریک برآمدے خالی پڑے ہیں، جس کے کھلے سے صحن سے آسمان پر چاند دکھائی دیتا ہے، انار کے پیڑ پر سرخ پھول اور پیڑ تلے فرش پر جھڑنے والے پھولوں کا ڈھیر، اور وہیں کسی برآمدے میں کسی آواز کا پیچھا کرتے کرتے اچانک ایک کھلی وسیع جگہ ، منجمد جھیل اور اس سے منعکس ہوتی چاندنی۔۔۔اَن دیکھے راستے، گھنے جنگل، درخت جو کبھی نہیں دیکھے جاگتے میں، ان کے پتوں سے چھن چھن کر آتی دھوپ ، چمکتے سورج کی روشنی جس کی شدت سے آنکھیں نہیں کھلتیں لیکن جس میں حدت بھی نہیں ہوتی، روشنی اور سایوں کا کھیل جو جاگتے میں بھی کسی اور زمانے کسی اور دور میں کسی دوسرے جہان میں پہنچا دیتا ہے، کبھی اپنے گھر میں جامن کے درخت تلے اتنے سارے کچھوے، برآمدے میں رسی سے بندھا شیر۔۔۔ اجنبی لوگ، جنہیں خواب میں مَیں خوب پہچانتی ہوں۔۔۔ جانتی ہوں۔۔۔ اور ایک آدھ بار ایسا ہوا کہ خواب میں دیکھا شخص بعد میں اصل میں دکھائی دے گیا، ویسی ہی بات، وہی انداز۔۔۔۔ تو پھر اصل کیا ہے، وہ جو اب دیکھ رہی ہوں، یا وہ جو نیند میں دکھائی دیتا ہے۔۔۔ یا پھر یہ دنیا واقعی خواب اندر خواب ہے۔۔۔۔

3 comments:

  1. اور کبھی شیشے کی دیواروں سے بنا ایک گھر، جس میں ایک شخص ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے اور جہاں جہاں سے وہ گزرتا ہے شیشے کی دیواریں اس پر گر کر کرچی کرچی ہوتی چلی جاتی ہیں، اور جب خون آلود اور زخمی وہ شخص بڑی تگ ودو کے بعد اس گھر سے نکل جاتا ہے تو شیشے کی وہ دیواریں یکایک پھر سے کھڑی ہو جاتی ہیں

    ReplyDelete