Friday, November 23, 2018

استعفیٰ

اب تک کتنی ہی بار میں نے اسے لفظ لفظ پڑھا اور پوری طرح محسوس کیا ہے۔ اور کیوں جی چاہتا ہے کہ ایسا ہی ایک استعفیٰ عموماً دنیا کے اور خصوصاً اس سوشل میڈیائی دنیا کے نام لکھا جائے۔

یہ سوشل میڈیائی دنیا جس نے ہمیں صاف گوئی کے نام پر منہ پھٹ، بے لگام بنا دیا ہے۔ ایسے ایسے کڑوے لفظ کیا، جملے ۔ کبھی ایک دوست نے میرے محض Hate کے لفظ کے استعمال پر کہا تھا کہ کیوں، اتنا Strong لفظ کیوں، Dislike کا لفظ بھی تو ہے۔ اور میں نے اس کی بات پلے باندھ لی۔ ہاں، خدا نے مجھے تو بڑی بڑی اچھی دوست دیں، وہ سبھی جو اَب اس مصروف دنیا کی بھیڑ میں میری ہی طرح خود کو اجنبی محسوس کرتی ہیں، اور بیزار اور مایوس ہوکر گم گئی ہیں۔ پر بات یوں کہ اب کی دنیا میں ایسی دوست بھی کہاں رہی ہیں؟ اب تو سیر پر سوا سیر کی دنیا، آگ پر تیل ڈالنے کی رسم والی دنیا۔ کانٹا رکھو تو اس پر کانٹا رکھ دینے والی دنیا، تو پھر دنیا رویوں کے کانٹوں سے بھر جائے تو حیرانی کیسی؟
یہ مصنوعی، روکھی، بے ڈھنگی ،خودغرض، بے حس دنیا جہاں جھوٹ یوں بولا جاتا ہے کہ جیسے ”چکی تھلے ہتھ آیا اے“۔ جہاں ہر بات ہر شے ہر احساس بس ”میں“ ”میرا“ ”میرے لیے“ سے متعلق ہے۔ Self interestedدنیا۔ بہت برس پہلے اپنی ڈائری کے کسی صفحے پر لکھا تھا ، ہم اب ”خاندان“ نہیں ”فیملی“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، ”خاندان“ سکڑ کر اب ”فیملی“ بن گئے ہیں میں، میرا میاں یا بیوی اور بچے اور وہ بھی تو کہیں کہیں مزید سکڑ کر میری اور صرف میری ذات۔ ”میری ذات“ کہ بس دنیا اسی کا طواف کرتی رہے۔ یہ بھی کبھی لکھا تھا کہ Independence سے بڑی کوئی چیز Interdependence ہے، لیکن ہمیں اب Independence چاہیے، ہر کسی سے، ہر ذمے داری سے آزادی۔ اس سوچ سے آزادی کہ کوئی دوسرا کیا سوچے، کیا محسوس کرے گا۔ ہماری ذات سے کسی کو کیا مل رہا ہے یا ملے گا، ہمیں کیا! میں نے اس ہنڈیا میں ڈالا کچھ نہیں تھا، لیکن پک کر بریانی قورمہ میرے سامنے پھر بھی آجائے۔ دیا کچھ نہیں، مل سب کچھ جائے۔ ذمہ داری نہیں اب تو بس ’’لائف انجوائے‘‘ کرنے کا زمانہ ہے۔ ہم کہ جنہیں اپنی مزدوریوں اور مزدور پیشہ ہونے پر فخر تھا، اب ہمیں گھروں میں آٹھ دس سال کی یا جو بھی ملازم بچے بچیاں چاہیئیں، ذرا ذرا سے کام کے لیے۔ ہمیں سہل پسندی چاہیے، تاکہ ’’انجوائے‘‘ کرسکیں۔ باتیں، اکھاڑ پچھاڑ، خواہ مخواہ کی کھودم کھود ، بلاوجہ کے تجسس، اِس نے اُس سے یوں کہا، ٹائپ۔۔ وہ چیزیں جن سے ہمارا تعلق نہیں ہم ان میں ناک گھسیڑتے ہیں، اور جہاں ذمہ داری اور تعلق ہے وہاں ہماری بے تعلقی ایسی کمال ہے۔
وہاں کہ جہاں ہمیں اپنے سامنے بیٹھے لوگوں، بڑوں سے بات کے لیے وقت اور زحمت نہیں، اور ہم ہر اچھی بری خبر وٹس ایپ اور فیس بک وغیرہ سے دور بیٹھے ان لوگوں سے ضرور شیئر کرتے ہیں، جن سے ہمارا حقیقت میں کوئی واسطہ نہیں، جن سے شاید زندگی میں ایک آدھ کے علاوہ ہماری ملاقات نہ ہوئی ہو، یا وہ بھی نہیں۔ اور پھر امید بھی ہم رکھتے ہیں کہ اس خبر پر داد دی جائے، مبارک دی جائے یا ہمدردی کی جائے اور نہ کی جائے تو دل میں ناراضی بھی ہوکہ جناب آپ نے سٹیٹس ہی نہیں دیکھا ہمارا۔۔۔ ہم بولتے ہیں، لگاتار بولے جاتے ہیں مگر ’’بات‘‘ کی ہمیں فرصت نہیں۔ بلکہ سامنے بیٹھے لوگوں سے ہم بذریعہ سوشل میڈیا ہی گفتگو کرتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ۔۔۔

جہاں ہم لوگوں کو اُن کی عمر کی رعایت دینے کو بھی تیار نہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ ان سفید سروں والے لوگوں نے زندگی کو کیسا کیسا جھیلا ہے، اب ذرا ان کی زندگی میں بھی کوئی ٹھہراﺅ، کوئی آسانی آجائے۔ذرا جو ہم اپنے رول شفٹ کرکے ”لینے اور لیتے رہنے“ کے مقام سے بس ذرا سا ”دینے“ کے مقام پر آجائیں۔ ان کے کسی کیے یا نہ کیے اعتراض پر اپنے رویے کا تھپڑ ان کے منہ پر نہ ماریں۔ اب تو ہمیں کسی بڑے کے سامنے جھکنے میں بھی عار ہے۔ ہماری انائیں۔۔۔۔

کس قدر پیاری ہے ہمیں یہ سوشل میڈیائی دنیا کہ یہ سارے رشتوں کو کھا گئی ہے۔ انہیں نبھانا اب اتنا اہم بھی کیوں ہو۔ بھول ہی گیا کہ ہر احساس دوطرفہ ہوتا ہے، شکایت بھی۔ لیکن ”میں“ اور ”میرا“ کے سامنے ”ہم“ اور ”ہمارا“ ہار گیا ہے۔
دہرے تہرے اور جانے کتنے کتنے چہروں والی دنیا، جہاں نہ مصلحت باقی ہے نا مصالحت۔
اب کیا کہیں کہ جی ہم نے لفظوں اور رویوں کی مار ایسی کھائی ہوئی ہے کہ ہمیں ان اٹھتے قدموں کی منزل، آنکھوں،اور ان کے پیچھے کھوپڑی اور اس میں موجود خیال تک رسائی ہو گئی ہے، مگر ہم خاموش رہیں گے، کیوں کہ دوسروں کے پردے فاش کرنا ہم پر واجب نہیں۔ اس لیے کہ خدا تو خود پردہ پوش ہے۔ تو چلو بھئی، ہم پچھلی صدی کے ناکارہ سکّوں جیسے لوگوں کو اجازت دو۔۔۔آنے والے کل میں ہمیں حنوط کرکے کسی میوزیم میں سجا لینا کہ ہم اسSelf interested نسل سے ہوتے ہوئے بھی اس کے ہوئے نہ ہی اپنے۔۔۔

No comments:

Post a Comment