Monday, June 22, 2020

باتیں ہماری یاد رہیں گی، باتیں ہماری سنیے گا...

باتیں ہماری یاد رہیں گی، باتیں ہماری سنیے گا...
باتیں... لطیفے، حکایتیں، چٹکلے، کہانیاں، یادیں، جدوجہد، بے شمار اشعار، اپنے ایجاد کردہ ڈھیروں محاورے، برمحل فقرے، اور سب سے بڑھ کر ہمارے ہاں سے معدوم ہوتی وہ دانش… کیا کیا یاد کریں... کیا کیا یاد رہے گا…
بقول خود انہی کے، ڈاکٹر مبشر حسن نے کبھی پوچھا کہ آپ کس یونیورسٹی سے پڑھے ہیں تو جواب میں بولے، ’’شاہ عالمی یونیورسٹی سے اور پڑھا کیا، میں ’’گھٹ پڑھ‘‘ ہوں۔‘‘ اب یہ ’’گھٹ پڑھ‘‘ صرف ایک مثال ہے اْن کی ایجاد کردہ بے شمار اصطلاحوں کی۔۔۔ خود اپنے لیے اس کا استعمال سوائے ان کی انکساری کے کچھ نہیں، وہ عطار جو کہتے ہوں کہ’’پرفیومر کی لیب اس کی ناک ہوتی ہے، میں کوئی بھی خوشبو سونگھوں تو میرا دماغ فوراً بتانے لگتا ہے کہ کس کس کیمیکل سے یہ خوشبو بن سکے گی۔‘‘
ڈیڈا۔۔۔۔ یعقوب گوئندی، فرخ سہیل گوئندی صاحب کے والد۔۔۔شروع شروع میں کبھی ان کا فون دفتر آتا اور ہماری مینیجر مصباح کی عدم موجودگی میں ریسیو کرتی، انہیں مصباح اور میری آواز ایک جیسی لگتی تھی، بغیر تعارف لیے بات شروع کرلیتے، مصباح بیٹی، بیٹی، ذرا یہ بات… بتاتی، میں ہما ہوں تو ہنس پڑتے آپ دونوں کی آواز ایک جیسی ہے، شکلیں بھی ملتی ہوں گی؟ مصباح کے آنے پر بتاتی، ڈ…سر کے فادر کا… فرخ صاحب کے والد کا فون تھا۔ ’’ڈیڈا‘‘ کہتے کہتے رک جاتی، بھئی کوئی دفتر کا طور طریقہ ہوتا ہے، کوئی ادب آداب ، اتنی بے تکلفی کاہے کی کہ آپ بھی ’’ڈیڈا‘‘ پکارنے لگیں۔ لیکن جہاں جناب باس اور ان کی بیگم نے کبھی ’’باس‘‘ جیسے تیور ہی نہ دکھائے ہوں، اور سچ یہ ہے کہ اپنے ہاں (جسے وہ ’’اپنے ہاں‘‘ نہیں ’’اپنے ساتھ‘‘ کہتے اور اپنی فیملی سمجھتے ہیں) کام کرنے والوں کے نازنخرے ہی اٹھائے ہوں تو یہ تو پھر اْن کے بھی اباجی ہیں۔ اب ان سے مخاطب ہوتے یہ تکلف اور طریقہ سلیقہ کب تک چلتا۔ بظاہر تو وہ رہے فرخ صاحب کے والد صاحب ہی، لیکن دل میں تو ’’ڈیڈا‘‘ ہی ہوگئے۔ اور پھر وہ ہم دونوں کی آوازوں میں فرق بھی پہچاننے لگے، ’’بھئی آپ کی اور اس کی ’ہیلو‘ میں فرق ہے، اسی سے پتا چل جاتا ہے۔‘‘
اپنی بیٹیوں کو تو ہر کوئی بیٹی سمجھتا اور محبت سے نوازتا ہے، اْن کے لیے ہم سب ہی بیٹیاں تھیں، کیا اپنی، کیا پرائی۔ سب ایک سی، سب برابر محبت کی حق دار۔ سب دعائوں کی مستحق۔
 اور پھر اْن کے ’’اینکرز‘‘ ، کوئی پلمبر ہے کوئی الیکٹریشن، کوئی ڈرائیور، کوئی کچھ... ’’کوئی ان کو برابر نہیں بٹھاتا، یہاں آتے ہیں، بیٹھتے ہیں، خوش ہو جاتے ہیں، ہیں جی...‘‘وہ بھی خوش اور یہ بھی، مل کر مجلس جما کر خوش، بانٹ کر خوش، ہنس اور ہنسا کر خوش۔ کوئی نقصان ہوا تو کہنے لگے، ’’تھا ، تبھی تو گیا ناں، نہ ہوتا تو کیسے ہوتا نقصان۔‘‘ تو ہونے کا شکر پہلے کرلیں، نقصان کا افسوس بعد میں سہی۔ اور صرف کہے کی بات نہیں، ایسے افسوس انہوں نے پالے بھی نہیں، نہ کبھی گنتی کی، کمایا ضرور تاعمر، تاعمر بانٹا بھی۔
اور ابھی تو آپ کو اپنی یادداشتیں مکمل کرنی تھیں... یادیں بے ترتیب…ابھی تین چار روز پہلے ہی تو آپ سے کہا تھا کہ ریکارڈ کردیں، بے ترتیب سہی، ہم کاغذ کی پرچیوں پر لکھی یادوں کو بھی ترتیب دے کر کتاب کی صورت دے دیں گے،اور آپ نے کہا کہ اچھا بیٹی، آج یقین آیا کہ آپ لوگ کتاب کے بارے میں سنجیدہ ہیں، اب میں مکمل کرلوں گا، اب سمجھا کہ آپ سب میری ٹیچرز ہیں، ہوتی ہے ناں کوئی جغرافیے کی ٹیچر، کوئی ریاضی کی، کوئی سائنس کی، ویسے ہی۔
لیکن اب بے ترتیب یادیں جو نامکمل ہیں تو کیسے جانیں گے لوگ کہ تعلیم نہیں علم ضروری ہے اور اس کے لیے نہ تو حالات رکاوٹ ہوتے ہیں اور نہ عمر، سیلف میڈ ہونا کیا ہوتا ہے، حلال رزق اور محنت کس چڑیا کا نام ہے، اور یہ کہ ادب کرنا اور کروانا احترام دینا اور لینا کیا ہوتا ہے، بے غرضی کیا ہوتی ہے، کون ہوتے ہیں جو دنیا میں بیٹھے ہوتے ہیں بظاہر میلہ جما کر، مشغول، لیکن مکمل تیار بھی، اِدھر بلاوہ آئے تو ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوں، سوٹ کیس تیار رہتا ہے…
جیت گئے آپ اخلاص کی بازی۔۔۔
ابھی دو روز پہلے تو ’’خوشبو سے گفتگو‘‘ کے نام سے انٹرویو کیا تھا آپ کے بیٹے نے آپ کا، اور اب خوشبو ہوا ہوئی۔۔۔ کیا سب عطار ایسے ہی ہوتے ہیں؟
ہنستے مسکراتے کھلکھلاتے، ایسے ہی رہے اور ایسے ہی ہنستے کھلکھلاتے اٹھ کر چل دئیے۔ اللہ آپ کو اْس جہان میں بھی ہنستا مسکراتا رکھے، آمین۔

No comments:

Post a Comment