واصف صاحب کہتے ہیں، اپنی زندگی میں کوئی ایک ایسا شخص ضرور ڈھونڈ لینا جو تمہیں خود تم سے زیادہ جانتا ہو۔
میری
خوش قسمتی کہ مجھے دو ایسے لوگ ملے، اور اس کو کیا کہا جائے سوائے اللہ کی
مرضی کہ دونوں ہی اس جہان سے رخصت ہوگئے۔ الطاف فاطمہ اور عزم بہزاد۔۔۔
دو چلتے مسافر۔۔۔
وہ
کہ جنہیں وہ خوبیاں بھی دکھائی دیتی تھیں جو کبھی کسی اور کو تو کیا خود
کو بھی نظر نہ آئی تھیں۔ اور وہ جنہیں خامیاں سمجھتی رہی انہیں وہ بھی
خوبیاں بن کر نظر آتی تھیں۔
کیسے صیقل سچے آئینے تھے، بس ایک لمحہ لگتا تھا جن کے سامنے اور اپنا آئینہ دل بھی صاف ستھرا ہو جاتا تھا۔
ہوتا
بس یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ایک لکیر کھینچ دیتے ہیں،اب آپ چاہے لکیر پیٹیں مگر اس سے پیچھے جانے کی اجازت نہیں، ایک معیار طے کردیتے
ہیں، پھر آپ کچھ بھی کرلیں اُس معیار سے نیچے اترنے کی
اجازت نہیں۔۔۔ آگے اور اوپر ہی جانا ہے۔۔۔
14جولائی2010
اللہ تمھیں بہت خوشیاں دے۔
مجھے تمھارا تہذیب یافتہ اور محتاط رویّہ بہت پسند ہے۔
ہر چند کہ فی زمانہ اتنی احتیاط آدمی کو دنیا کی "عارضی" خوشیوں
سے دور رکھتی ہے یا کر دیتی ہے ، لیکن ٹھیک ہے کہ اس کے پیچھے
بڑے احکامات کی پیروی شامل ہے۔۔۔۔۔ تم نام ، مقام اور دولت و آسائش کی
پروا نہ کرو کہ اللہ نے یہ سب تمھیں دوسری شکل میں عطا کر رکھا ہے۔
تمھارا نام و مقام اللہ کی بارگاہ میں طے کیا جا چکا ہے۔ تم ایک لفظ سے
چڑتی ہو ، مگر میں پھر دہراوں گا کہ میرا رب کسی کو محروم نہیں رکھتا
اور اگر کوئی کسی پہلو سے محروم ہے تو اسے یا تو کسی اور خانے میں
نوازے رکھتا ہے یا پھر اس کا بہت بڑا اجر اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔
رہی دولت و آسائش کی بات تو تمھارا کردار ، تمھارا استقلال ، تمھارا ضبط
اور تمھارا صبر تمھاری بہت بڑی دولت ہے ۔ ان صفات کو پانے کے لیئے
آدمی دنیا بھر کی دولت بھی لُٹا دے تو نہیں پا سکتا۔۔
کبھی کبھی تمھیں مخاطب کرتے ہوئے میری آنکھیں شفقت بھرے آنسووں
سے بھر جاتی ہیں ، جیسے اس وقت۔۔۔ میرے یہ آنسو تمھارے لیئے مسلسل
دعائیں ہیں ، جنھیں اللہ ضرور قبول کرے گا۔
میں تمھیں اتنا ہی جانتا ہوں ، جتنا تم نے مجھے بتانا چاہا۔۔ یہ عجب تعلق ہے
جس کی بنیاد پاکیزگی اور احتیاط پر قائم ہے۔
ہمیشہ خوش اور مطمئن رہنے کی کوشش کرو کہ ہم معمول سے زیادہ کچھ
نہیں ، ہمارے بارے میں تمام فیصلے لوح _محفوظ پر مکتوب ہیں۔