Sunday, December 21, 2014

سچے لوگو، تھک مت جانا۔۔۔

عجیب بے حسی ہے اور غضب کی بے بسی ہے۔ سوچ ہی سوچ ہے اور لفظ گم ہیں۔ ۔۔۔
کیا کریں کہ جس سے بہت سوں کی بے حسی اور اپنی بے بسی کم ہو، کوئی ایسی چیخ نکلے حلق سے کہ سینے پر دھرا پتھر پھسل جائے ، جو جھنجھوڑ کر سب کو جگا دے، کوئی ایسی چیخ جو کانوں ہی نہیں دلوں تک بھی پہنچے۔۔۔ کوئی تو ایسے لفظ ہوں جن میں تاثیر ہو دلوں میں آگ لگانے کی ۔۔۔ اختیار والوں کو اختیار آزمانے پر اکسانے کی ۔۔۔

کیا چاہتے ہیں ظالم؟  یہی ناں کہ لوگ ظلم کے حق میں دلیلیں لانے لگیں، ایسی سفاکی اور بے رحمی کے عادی ہوتے چلے جائیں، دنیا سے انسانیت اور احساس اٹھ جائے۔۔۔ بد سے بدتر کے عادی، قطار میں کھڑے اپنی اپنی باری کے منتظر۔۔۔ یا اس خوش فہمی کا شکار کہ یہ آگ ان کے گھروں، ان کی نسلوں، ان کے مستقبل، ان کے خوابوں کو نہیں خاک کرے گی؟
ظلم کا جواز ظلم کیسے ہو سکتا ہے؟ ظلم کا جواب ظلم کیسے ہو سکتا ہے؟ ظلم کی دلیل وہاں سے کیسے لائی جا سکتی ہے جو عالمین کی رحمت تھے،جس پر ایک عام حساس دل کانپ جاتا ہو،پھٹ جاتا ہو، اس کی توثیق اس ذات سے منسوب کرنا جو سراسر رحمت ، حلم ، حکمت، محبت؟  وہ خدا جو محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے، اس سے ظلم کے حکم کیسے منسوب کیے جا سکتے ہیں؟

کیا کیا جائے؟ کیا کیا جائے کہ دلوں کو ڈھارس ملے؟ ذہنوں کو تسلی ہو ہاں ہمارے بس میں ہے کچھ؟
بولیں جناب، اب بھی نہ بولے تو آنےوالی نسلیں نہیں روئیں گی، آنے والی نسلیں رہیں گی ہی نہیں، گزرے وقت کو رونے والے چند بوڑھے بے بس باقی رہ جائیں گے، یا جانور، جانور بھی درست لفظ نہیں، انسان نما لوگوں کی ایک بھیڑ۔۔۔ اب بھی نہ بولے تو نہ دنیا کے رہیں گے نہ آخرت کے۔۔۔۔
ہمارے گھروں، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، دفتروں، سڑکوں، بازاروں، جہاں کہیں بھی ظالموں کے ہمدرد موجود ہیں، مالی، اخلاقی، ڈھکی چھپی جس قسم کی بھی سپورٹ کرنے والے، ان کے خلاف بولیں، ان کو پہچانیں، ان کو ہجوم سے الگ کرکے پہچانیں ، جن کے ذہنوں کی گرد جھاڑ سکتے ہیں جھاڑیں، جن کی سوچ بدل سکتے ہیں بدلیں، جن کی نہیں بدل سکتے ان کی مذمت کریں، ان کا مقابلہ کریں، اخباروں میں لکھنے والے ان طالبان ظالمان کے ہمدرد، میڈیا پر ان کو وقت دینے والے، ان کے حق میں دلیلیں گھڑنے والے، ان کے لیے جواز تراشنے والے۔۔۔
اب تو فیصلہ کرلیں کہ ظالم کے ساتھ ہیں کہ مظلوم کے ساتھ۔۔۔ اب تو چھوڑ دیں مذہب، فرقہ، ذات، نسل، گروہ کی پہچان۔۔۔ مظلوم جس بھی مذہب، فرقے، ذات کا ہے، ہم اس کے ساتھ ہیں۔۔۔ ظالم جس بھی مذہب، فرقے ، ذات کا ہے ۔۔۔ اس کے خلاف۔۔۔۔
یہ بچے جو مار دئیے گئے، خواب تھے آنے والے اچھے دنوں کے، خواب جن کا مذہب، فرقہ، کوئی ذات نہیں۔۔۔آنے والا کل مار دیا گیا۔۔۔ اس پر،  ان کے لیے بھی نہ بولے ، ان پر ظلم کے خلاف بھی نہ لڑے تو کب لڑیں گے پھر۔۔۔۔خاموشی بھی جرم ، خاموشی بھی ظلم کا ساتھ ہے اب تو۔۔۔۔
کسی نے لکھا، اور بجا لکھا، دین داروں سے دین کو نہ پہچانیں، دین سے دین داروں کو پہچانیں، اسلام کو "مسلمانوں" سے نہ پہچانیں، مسلمانوں کو اسلام سے پہچانیں۔۔۔ اسلام جو درسِ انسانیت نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔
کیا کریں؟ یہ کہ اپنے احساس کو مرنے نہ دیں۔۔۔ نہیں، ہم ظلم دیکھ دیکھ کر ظلم اور سفاکی کے عادی نہیں ہوں گے۔۔۔
خون ہمارے لیے کبھی پانی نہیں بنے گا۔۔۔ ہم ظلم کے کوریج پر نہیں پالیں گے اپنے دلوں کو۔۔۔ انہیں احساس سے عاری، مردہ نہیں ہونے دیں گے۔۔۔ ہمارے دلوں کو ظلم پر تڑپنے کے لیے لاشوں کی گنتی کبھی نہیں کرنی۔۔۔
یہ کہ ہم اس ظلم کو، ہر طرح کے ظلم کو معاف نہیں کریں گے، نہیں بھولیں گے۔۔۔ نہیں ہاریں گے۔۔۔

No comments:

Post a Comment