Friday, December 26, 2014

دھند میں راہیں

ہمیشہ سے مجھے لگتا ہے جیسے دھند کوئی ٹائم ٹنل ہے، وقت میں سفر، کسی دوسرے جہان کا دروازہ، بچپن میں پڑھی کسی کہانی کا سحر۔۔۔۔ جیسے دھند کا یہ دروازہ کسی اور زمانے پہنچا دے گا۔۔۔ گزرے زمانے میں۔۔۔ مگر آج میں نے سوچا کون سا گزرا زمانہ؟ دس برس پہلے کا، جب بھی ایسا ہی کشت و خون جاری تھا، بیس برس پہلے کا؟ جب مسجدوں میں فائرنگ ہوتی تھی، بم پھٹتے تھے اور اخباروں میں لاشوں کی گنتی پر بحث ہوا کرتی تھی کہ کتنے مر گئے، کب نہیں ہوا کہ مذہب، فرقے، رنگ، نسل، صوبائیت اور جانے کس کس نام پر انسان نے انسان کا خون نہ بہایا ہو، کیا ہی مخلوق ہے یہ، واحد کہ جو عظیم تر نظریوں، فلسفوں، عقیدوں کے نام پر، اور کمال کے اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے محبت کے نام پر، ایک دوسرے کا خون بہاتی رہی ہے، واحد مخلوق جو خود اپنی جان لے لینے پر بھی قادر ہے۔۔۔واحد مخلوق جسے موت اور زندگی کا شعور دیا گیا مگر جو ہر لمحے مارنے کو اور مرنے کو تو تیار رہتی ہے، جینے کو نہیں۔۔۔ اچھا تو دھند کا یہ دروازہ اگر اس سے بھی پیچھے لے جائے؟ دھندلی سی یاد ہے، خبریں پڑھتے یا سنتے میرے ابا،جو کہا کرتے تھے "ضیا مردود"۔۔۔ اور یہ سمجھنے میں ایک وقت لگا تھا کہ یہ "مردود" کوئی سر نیم یا تخلص نہیں تھا۔۔۔ وہ شخص جس نے ایک پوری نسل رائیگاں کر دی۔۔۔ جس کے بوئے ہوئے بیجوں کے فساد کی فصل اب بھی لہلہلاتی ہے۔۔۔ تو گویا اپنی عمر میں تو کوئی زمانہ امن یا تھا نہ سلامتی کا،تو کوئی نیا جہان تلاش کیا جائے؟ اس دھند کے دروازے کے پار؟ جس میں حد بصارت ہے شاید پچاس فٹ، اور اندر جو دھند ہے اس میں حد بصیرت پانچ سینٹی میٹر بھی نہیں۔۔۔ دس دن ہونے کو آئے، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بے بسی کا، ذمے داری کا ، قصور واری کا، اور ہاں جیسے شراکت جرم کا بڑھتا ہوا بوجھ ہے۔۔۔ کیوں؟ کیوں کہ ہم ۔۔۔ہم خاموش رہے۔۔۔ کیوں کہ ہم نے بڑھتے ہوئے فساد اور پاگل پن سے ڈر کر بولنا چھوڑ دیا۔۔۔ ارے پاگلوں کو کون سی کوئی دلیل یا عقل کی بات سمجھ آتی ہے، کون اپنا سر پھٹوائے، ہم بھی کوئی منصور ہیں؟ ہمارا سر نہیں طفلانِ رہ گزر کے لیے، اس دیارِ سنگ میں۔۔۔ یہی سوچا تھا ناں؟ اور پھر یوں ہوا کہ مارنے والوں نے بلا امتیاز رنگ و نسل، مذہب، آنے والے کل کے خواب ، معصوم بچے مار ڈالے۔۔۔ اور اب کوئی چیخ ہے جو سِل بن کر سینے پو جم سی گئی ہے، مگر مارنے والوں نے مستقبل کے خواب نہیں، جیسے اب سارے خوف مار دئیے ہیں، کیا ہوگا؟ اب اس سے زیادہ کیا ہوگا بھلا؟ کوئی مائیں ہیں، جن کے دکھ کے احترام میں ہنسی اب حلق میں پھنس جاتی ہے، جن کی اذیت کے خیال سے اب نیند آنکھوں میں جاگتی ہے۔۔۔ یا اللہ ۔۔۔۔ کیسی دھند ہے جو آنکھوں کے سامنے ہی نہیں تنی، زمین پر ہی نہیں بلکہ تاریخ پر، عقیدوں پر اور بصیرتوں تک پر چھا چکی ہے۔۔۔ اندھیرے میں تو چراغ روشن ہو جاتے ہیں، دھند میں راہیں کیسے ڈھونڈی جائیں؟؟؟

No comments:

Post a Comment