لاکھ بار شکر اس سب کے لیے جو اللہ نے عطا کیا اور کروڑہا بار شکر اس سب کے لیے جو اللہ نے عطا نہیں کیا۔
کسی شاخ سبز کی چھا ؤ ں میں...
یہ خود اپنی دریافت کا سفر ہے۔۔۔ تاریک گوشے میں بیٹھ کر روشن دنیا کو دیکھنے کا عمل۔۔۔
Wednesday, March 13, 2024
ایک یاد دہانی
اس دنیا کی کسی بھی بات یا چیز میں بہت دل لگانے اور اس دنیا کی کسی بھی بات یا چیز کو دل پر لگانے کی ایسی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
Sunday, November 12, 2023
رزق
Saturday, November 11, 2023
مقامِ شکر
اور یہ تو مقامِ شکر ہے کہ آپ کسی انسان سے کوئی امید رکھیں ، وہ اس امید کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی توڑ دے۔۔
الحمدللہ
Monday, July 31, 2023
شکر و عاجزی کا غرور
Thursday, March 30, 2023
۔۔۔ہرا بھرا گھر تھا۔۔
"صبح دم جو دیکھا تھا، کیا ہرا بھرا گھر تھا
ڈانٹتی ہوئی بیوی، بھاگتے ہوئے بچے
رسیوں کی بانہوں میں، جھولتے ہوئے کپڑے
اک طرف کو گڑیا کا ادھ بنا گھروندا تھا
دور ایک کونے میں سائیکل کا پہیہ تھا"
سائکلیں تھیں بھائیوں کی، (وہ سرخ سائیکل بھی جس کے چلتے پہیے میں میرا پیر آیا تھا اور ابو سے میرے بھائی کو رہ رہ کر ڈانٹ پڑی تھی)
مرغیوں کے ڈربے تھے
کابکیں تھیں پنجرہ تھا
سیزر جو ہماری آمد سے پہلے دنیا سے گزر گیا مگر ابا کا لیجنڈری پالتو جس کے فلموں میں کام کرنے ، زخمی ہیرو کو تانگے پر لے جانے، تمیز تہذیب کے قصے بعد میں پیدا ہونے والوں تک کو سنائے جاتے رہے، کہ تہاڈے توں بوہتی عقل تے سیزر نوں سی۔۔۔ پھر جمی، ڈیزی۔۔۔
انگور کی بیلیں تھیں، جامن امرود انار شہتوت کے پیڑ تھے
سبزیوں کی کیاریاں تھیں، پودینہ اور لیموں جو محلے بھر میں بانٹے جاتے تھے
گلاب کی جھاڑیاں اور موتیا، جو ہر صبح جمع کرکے ابا رومال میں رکھتے، واحد سنگھار جو میں نے امی کو کرتے دیکھا ، بالیوں میں موتیا کے پھول۔۔۔ اور جو ابا ہر آنے والے مہمان کو بطور تحفہ دیتے، موتیا کے پھول۔۔۔
صحن جہاں کنک (گندم) چھان پھٹک دھو کر پھیلائی جاتی اور پرندوں اور ہمارے کھیل کا سامان ہوتی۔
سہ پہر کو پڑوس کے بچے اسی صحن میں ادھم مچاتے، لڑتے اور لڑائیوں کو اپنے اماں ابا سے چھپاتے ۔
شام کو اسی صحن میں چارپائیاں بچھتیں اور بجلی جانے پر ابا امی کوئی تاریخ سے قصے یا حالات حاضرہ ۔۔۔ یا پھر بڑے بھائی خوب ڈرائونی سی کہانیاں سنایا کرتے۔۔۔
کھلا سا صحن جو الیکشنوں کے دنوں میں کارنر میٹنگوں کے لیے اور محلے کی کسی بھی بیٹی کی شادی کے لیے ابا پیش کر دیا کرتے تھے۔ زکوۃ کمیٹی کے لیے بھی، جہاں اسی صحن میں بیٹھی کتنی خالہ جی ماسی جی اماں جی کے لیے ہمیں ہدایت ملتی تھی کہ سنو مدعا اور لکھو درخواست، بخدمت جناب چئیرمین زکوۃ کمیٹی۔۔۔
بڑی عید پر مسجد کمیٹی کی مشترکہ قربانی بھی اسی صحن میں ہوتی ، انفرادی یا مشترکہ ان جانوروں کی خدمت بھی ابا کے ذمہ، تکبیر ہمیشہ ابا پڑھتے اور امی باقیوں کو شرم دلاتیں، انور صاحب نے لے جانا اے سارا ثواب تے تسی ساریاں نے پل صراط تے گائے بیل دی پوچھل پھڑدے رہ جانا اے۔
ماسی جس کی صفائی پر میری بہن یا میں کبھی سکول سے آکر کہتے، آج ماسی مٹی بھرے پوچے لگا کر گئی ہے فرشوں پر تو امی کا جواب ملتا، گھر تہاڈا اے، ماسی دا نئیں۔ ایسے یاد رہے ہیں یہ بالواسطہ تربیت بھرے جواب کہ کچھ بھی کر لوں ، آج تک کمی کجی اپنے عمل میں ہی نظر آتی ہے کہ پہلے اپنا گھر آپ صاف کرنا اے۔۔۔
Thursday, March 9, 2023
اظہار کا سفر
عزم بہزاد
Friday, February 24, 2023
سلام ان پر۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایسے لوگ داخل ہوں گے جن کے دل چڑیوں کی طرح ہوں گے۔
اور
ان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بے شمار اور لگاتار درود و سلام جو اس بچے
کے پاس اس کی دلجوئی کی خاطر دن بھر بیٹھ رہے تھے جس کی پالتو چڑیا مر گئی
تھی، وہ جو کسی یتیم کے سامنے اپنی اولاد کو محبت سے پکارنے سے منع فرماتے
تھے، درود و سلام ان پر جنہیں ہر کسی کے دل کی سلامتی کا اس قدر خیال تھا،
درود و سلام ان پر کہ جنہوں نے ممتاز ترین ہو کر بھی ہر امتیاز کو رد کیا،
جنہوں نے وجہ وجود کائنات ہو کر بھی عام رہنا پسند کیا کہ ہم سے عامی ان
سے نسبت رکھ سکیں، جنہوں نے رعب نبوت سے کانپنے والے
بدو سے فرمایا تھا، مت ڈرو کہ میں اس غریب ماں کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت
پکا کر کھاتی تھیں۔ درود وسلام ان پر، مدینہ میں ایک دیوانی بڑھیا جن کا
ہاتھ تھام کر دیر تک ان کے کان میں اپنی دیوانگی بھری باتیں کرتی رہتی اور
آپ مسکراتے رہتے، سنتے ہی رہتے۔ ایک روز حضرت عمر نے اس عورت کا ہاتھ جھٹک
کر پرے کیا اور کہا یا رسول اللہ یہ تو پاگل ہے، اس کی تو شہر بھر میں
کوئی بھی نہیں سنتا۔ آپ نے فرمایا کوئی بھی نہیں سنتا تو کیا میں بھی نہ
سنوں۔ سلام ان پر کہ جنہوں نے طائف میں رب ذوالجلال کو رب مستضعفین کہہ کر
پکارا۔ کمزوروں کا رب، بے نوائوں کا رب، تنہا رہ جانے والوں کا رب ۔ درود و
سلام ان پر ، میرے ماں باپ قربان ان پر کہ جنہوں نے انصار سے فرمایا کہ
کیا تمہیں قبول نہیں کہ مکہ والے سارا مال غنیمت اونٹ بکریاں لے جائیں اور
تم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو۔
آواز سی آئی میرے قدموں پہ قدم رکھ۔۔۔
آواز سی آئی میرے قدموں پہ قدم رکھ۔۔۔
Thursday, January 19, 2023
ہندسے اور لفظ
اعداد و شمار، نمبرز اور فگرز، نتیجہ ہوتے ہیں، مقصد نہیں۔ مقصد الفاظ کی
صورت بیان ہوتا ہے، نتیجہ ہندسوں کی صورت۔۔۔۔۔
مگر ہم نے ہندسوں کو مقصد اور
لفظوں کو حتمی نتیجہ سمجھ لیا ہے۔
Monday, October 17, 2022
راہ نما
Monday, July 18, 2022
زندگی
زندہ لوگوں میں زندگی نظر آنی چاہیے، آنکھ کے آنسو کی صورت سہی، ہونٹوں کی ہنسی کی صورت سہی، ماتھے کی شکن کی صورت سہی، زندہ لوگوں میں زندگی نظر آنی چاہیے۔۔۔
Friday, July 8, 2022
احمد جاوید صاحب کی ایک گفتگو بلکہ تنقید۔۔۔۔
something which traumatized people seek to numb their unresolved traumas and unrecognized pains, which toxic culture imposes on them.. and in result it's mindlessness that we seek and not mindfulness what we need...
we shy away from our authentic selves...
https://www.youtube.com/watch?v=Gku5_aL5f5o
Monday, June 13, 2022
سر عزم بہزاد کی ای میل ۔ ۳
Monday, April 11, 2022
غم
حضرت یعقوب چالیس برس اپنے بیٹے حضرت یوسف کے لیے گریہ کرتے رہے۔
غم، ناشکرگزاری نہیں ہوتا۔
غم اور آنسو اپنے مالک کے حضور اپنی بے بسی اور عاجزی کا اظہار ہوتے ہیں۔
اپنے کچھ بھی نہ ہونے کا اقرار ہوتے ہیں۔
Saturday, February 12, 2022
Friday, October 15, 2021
سر عزم بہزاد کی ای میل ۔ ۲
ایک پرانی ای میل مرشد کی۔۔۔سر عزم بہزاد کی
سر پر دھرے شفقت بھرے ہاتھوں میں سے ایک، میرے چراغوں میں سے ایک چراغ
15اکتوبر2008
اکّااااا !
تم بعض اوقات ضرورت سے زیادہ حساس ہوجاتی ہو، تمہاری یہ حساسیت تمہاری تعلیم اور حصولِ علم کی خواہش کی پیداکردہ ہے۔ یہ وہ حساسیت ہے جسے اکثروبیشتر تمہاری تنہائی بڑھا دیتی ہے۔
میں نے اپنی اب تک کی عمر میں بہت تعلق نبھائے، اتنے تعلقات کہ کوئی مجھے ’’تعلق دار’’ کوئی ’’شکارِ احباب‘‘ اور کوئی ’’ہمدرد دواخانہ‘‘ یا ’’حکیم سعید‘‘ کہا کرتا۔ میں یہ سب سنتا اور پھر اپنے گرد جمع ہجوم میں کھو جاتا۔ بہت دن بعد میرے اندر ایک احتساب نے جنم لیا جس کا تقاضا تھا کہ اپنے اطراف جمع بھیڑ کو غور سے دیکھو اور فیصلہ کرو کہ کتنے لوگ تم سے مخلص ہیں اور کتنے محض ’’خوش وقتی‘‘ کے لیے موجود ہیں؟
مجھے یہ جواب ملا کہ سب کے سب خوش وقتی کے لیے جمع ہیں اور اپنی اپنی اننگز کھیل کر بھاگ جائیں گے۔ میں جانے کس مٹی کا بنا ہوں کہ میں نے یہ سب جانتے ہوئے بھی نتیجہ وقت پر چھوڑا اور خوش وقتی کرنے والوں سے ’’خوش دلی‘‘ سے ملتا رہا۔ آخر وہ وقت آیا کہ سب ’’اسیرانِ خوش وقتی‘‘ ایک ایک کر کے منظر سے غائب ہونے لگے۔ اُن ہی دنوں ایک عجیب احساس میرے اندر پیدا ہوا (جو آج بھی پوری قوت سے موجود ہے) کہ مجھے نقصان کا صدمہ نہیں ہو پایا بلکہ بعض مقامات پر تو ایسا لگا کہ دل کا کوئی بوجھ ہلکا ہو گیا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ یہ احساس خاموشی سے میری شاعری کے اندر بھی در آیا اور جانے والوں کے میری غزلوں میں جا بجا اشعار نظر آنے لگے، مثلاً
عمر کے حیرت خانے میں اب یہ سوچتے رہتے ہیں
تم کو بھول گئے ہیں ہم یا جسم سے گرد اتاری ہے
یا
اب تو ملال بھی نہیں یعنی خیال بھی نہیں
کون کہاں بچھڑ گیا تیز ہوا کے شور میں
یا
شاخِ دل کی ہریالی خواب کا بیاں ٹھہری
میں نے جس کو نم رکھا وہ زمیں ہی بنجر تھی
تو اکّا ان باتوں پر ملول نہ ہوا کرو اور اگر ملال زیادہ ہو تو ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھ لیا کرو۔
میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔
اللہ حافظ
Wednesday, August 18, 2021
ازلی تنہائی کا بیان ۔ سر عزم بہزاد کی ای میل ۔ ۱
واصف صاحب کہتے ہیں، محسن کے احسان کو یاد رکھنے سے اللہ کا شکر ادا ہوجاتا ہے۔ یہ کہ محسن کے ساتھ وفا کی جانی چاہیے۔ یہ تو عنایت ہے اللہ کی کہ زندگی کے ہر حصے میں کسی نہ کسی کو بھیجتا رہا ہے وہ، انسان، محسن، یا خیال یا لفظ، یا پھر کبھی کہیں حبس میں ہوا کا جھونکا ہی، یہی احساس دلانے کو وہ کبھی کسی کو تنہا نہیں چھوڑتا ، کبھی کسی کو بھولتا نہیں۔
تو انہی میں سے ایک ہیں سر عزم بہزاد، ایک بے حد شفیق ہستی، ایک مہربان استاد ، ایک مخلص دوست، اور ایک بے حد نیک انسان۔۔۔ اس بلاگ کا نام انہی کے ایک مصرعہ پر رکھا گیا ہے۔۔۔
کسی شاخِ سبز کی چھائوں میں ، کوئی خار چبھ گیا پائوں میں
میں زیادہ دیر جو چپ رہا تو فضا کی چیخ نکل گئی
ایک بار انہیں بتایا تھا کہ میری بھتیجی مجھے اکّا کہتی ہے ، پھر بھتیجی تو چاہے بھول گئی ہو اکّا کہنا، انہوں نے یاد رکھا اور مجھے ہمیشہ اسی نام سے پکارا۔ارادہ ہے کہ ان کی کچھ ای میلز یہاں اس نیت سے شیئر کی جائیں کہ اور لوگوں کو بھی شاید اس سے کچھ رہنمائی مل سکے، اور یہ جانے والوں کے لیے بھی صدقہ جاریہ کا سبب بنے۔ اگر آپ یہ پڑھ رہے ہیں تو ان کے لیے دعائے مغفرت ضرور کیجئے گا۔ رب العزت اُن کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
ان کی28فروری 2008 کی ایک ای میل۔
وعلیکم سلام اکّا
تمہاری یہ تحریر مجھے بہت بے ربط لگی۔ تم میرے مشوروں پر عمل کرنے کی بجائے اپنے آپ میں الجھتی جا رہی ہو۔ تمہارے سوالات حق بجانب ہیں لیکن یہ دنیا ہے، یہ ہر سوال کا مدلل جواب دینا جانتی ہے۔ تمہیں تمہارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے، لیکن یہ تمہاری تشفی نہیں کرسکیں گے۔ وجہ یہ کہ دنیا میں رائج جوابات مادی اور عقلی رویوں کی بنیاد پر ترتیب دئیے گئے ہیں جب کہ ہمارا قبیلہ دل کی آواز سننا چاہتا ہے، ایسی آواز جس پر سود وزیاں کا سایہ نہ ہو۔ تم نے کونڈولیزا رائس کی تقریریں نہیں دیکھیں، بش کو نہیں سنا، ڈک چینی کو نہیں دیکھا، یہ ایک خود ساختہ واقعے یعنی ٹریڈ سینٹر کے منہدم ہونے کے بعد جس جس طرح جھوٹ بول رہے ہیں اور دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کرتے جا رہے ہیں۔ تم ان کے چہروں پرکسی قسم کی شرمندگی نہیں دیکھو گی، کیوں کہ ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔ ہمیں ان کے جواب یوں مطمئن نہیں کرتے کہ ہمارا دل اسے تسلیم نہیں کرتا۔ اِس وقت ہمارے چاروں طرف یہی ہو رہا ہے ۔ ہر مرد اور ہر عورت، ہر بھائی اور ہر بہن ، ہر دوست اور ہر سہیلی سب، کوئی بش ہے تو کوئی رائس یا کوئی مشرف ہے۔
دنیا اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے۔ آج كے انسان کو نفع اور نقصان کا فیصلہ نہیں کرنا پڑتا ، یہ تو شاید اس كے اندر فیڈ ہو گیا ہے۔ آج كے انسان کو جہاں فائدہ نظر آئے، وہاں بچھ جاتا ہے ، اور جہاں اس کا نقصان ( یعنی اسے کچھ دینا پڑے ) ہو، وہاں سے وہ اُکھڑجاتا ہے۔ اِس معاشرے میں اگر تم یہ چاہو کہ اگر تم کسی کوتنگ نہیں کرتیں تو کوئی دوسرا تمہیں بھی تنگ نہ کرے، بھول جاؤ، یہاں بھی تمہیں مایوسی ہو گی۔ لوگ تمہارا یہ احسان بھی نہیں مانیں گے کہ تم نے کبھی انہیں تنگ نہیں کیا ، کبھی زیر بار نہیں کیا ، وہ اِس كے باوجود تم سے وہ سب کچھ طلب کریں گے جن کا کبھی تم نے ان سے مطالبہ بھی نہیں کیا ہو گا۔
اب اسی بات کا دوسرا رخ دیکھو۔ میں نے تم سے کہا تھا ،ہم سب تنہا ہیں اور اپنی تنہائی کو فراموش کرنے كے لیے نت نئے مشاغل ایجاد کرتے رہتے ہیں ۔ اگر ذہنی رَو مادی ہو تو ہر مشغلے اور رشتے كے پیچھے کوئی جسمانی مادی فا ئدہ کارفرما ہو گا۔ اگر ذہنی رَو روحانی ( غیر مادی ) ہو تو ہر مشغلہ اور ہر رشتہ تسکین قلب کا متقاضی ہو گا۔ تم اور ہم اِس دوسرےقبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ قبیلہ دنیا کی نگاہ میں زیاں کار سمجھا جاتا ہے۔ اِس مسئلے کو غور سے دیکھو تو ہے یہ تنہائی کا مسئلہ ہی ، اُدھر مادی اور جسمانی مفاد اور اِدھر عزتِ نفس اور تسکین قلب کا مطالبہ۔
اکّا ! تم اپنی تنہائی سے لڑ رہی ہو ،مسئلہ ایڈجسمنٹ کا ہے ، تم اِس لڑائی میں اپنا محفوظ مورچہ نہیں بنا پا رہیں، وجہ ایسی مصروفیات کی کمی جس میں کچھ دیر کو آدمی اپنی تنہائی کو بھول جائے۔ یہ رشتے جو ہمارے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں، ان سے محبت اِس لیےہوتی ہے کہ یہ ہماری تنہائی بھلانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ہم ان میں گُھل مل کر اپنی تنہائی کو فراموش کیے رہتے ہیں۔ تنہائی کو بھلانے یا صیقل کرنے کا بہترین ذریعہ اپنے آپ کو دریافت کرنا ہے۔ یہ سیلف ڈسکوری کا ہنر شاعروں كے پاس سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ جو دِل پہ گزرتی ہے، وہ تو رقم کرتے ہی ہیں لیکن اِس سے بھی آگے وہ بھی رقم کر جاتے ہیں جو دِل پر گزرنے سے وجود پر رقم ہوتی ہے ۔ یہ ہے اس ازلی تنہائی کا بیان جو ہم سب کا مقدر ہے۔
تمہیں اب کوئی ملازمت کر لینی چاہیے، یہ میں یوں کہہ رہا ہوں کہ ہم جیسے زیاں کاروں کو دنیا کا محتاج نہیں ہونا چاہیے ۔
مت گھبراؤ اِس دنیا سے ، اِس پر سوالات بھی نہ کرو۔ اسے بس تیسری آنکھ سے دیکھتی جاؤ اور جہاں مناسب ہو وہاں کوئی جملہ بھی ٹکا دو۔ اپنی اِس بات کا اختتام اپنے اِس شعر پر کروں گا :
اِس رونق میں شامل سب چہرے ہیں خالی خالی
تنہا رہنے والے یا تنہا رہ جانے والے
اللہ تمہیں بہت خوشیاں دے ۔
اللہ حافظ
Friday, March 19, 2021
مہمانوں سے مہمان سرا کچھ کہتی ہے
Monday, March 15, 2021
ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔۔۔
ادب راہ کا پہلا چراغ ہے۔
اسی لیے کسی کے جھوٹے خدا کو بھی برا کہنے سے منع کیا گیا کہ سجا رکھے ہیں لوگوں نے دلوں میں۔ خدا جھوٹا ہے، عقیدت تو سچی ہے۔ آبگینوں کی حفاظت کا فرمان ہے۔ پھر جہاں خدا، ادب اور عقیدت سچی بھی ہو۔۔۔۔خدارا اسے ہنسی ٹھٹھول کا حصہ مت بنائیے۔۔۔
کسی یتیم کے سامنے اپنی اولاد کو پیار کرنے سے، ہمسایہ غریب ہو تو پھل کھا کر چھلکے باہر پھینکنے سے، دُکھی کے سامنے اپنی خوشی کے مظاہرے سے اسی لیے منع کیا گیا ہے۔۔۔ کسی میں محرومی کا احساس جگانا، محرومی کا احساس جو رحمتوں سے مایوس کرنے لگے۔۔۔۔
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم۔۔۔ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔۔۔